کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 194
پڑھتے تھے،لیکن اس میں قیام لمبا کرتے تھے: فلما کان ذالک یشق علی الناس قام بہم ابی بن کعب فی زمن عمر بن الخطاب عشرین رکعة یوتر بعدہا اوی یخفف فیہا القیام فکان تضعیف العدد عوضا عن طول القیام وکان بعض السلف یقوم اربعین رکعة فیکون قیامہااخف ویوتر بعدہا بثلاث وکان بعضہم یقوم بست وثلاثین رکعة یوتر بعدہا انتہیٰ(فتاویٰ ابن تیمیہ ص148 ج1) یعنی جب طول قیام لوگوں پر شاق ہونے لگا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں حضرت ابی بن کعب قیام میں تخفیف کر کے وتر کے علاوہ لوگوں کو بیس رکعات پڑھانے لگے۔رکعات کی یہ تعداد زیادتی طولِ قیام کے عوض میں تھی۔بعض سلف چالیس رکعتیں پڑھتے تھے تو ان کا قیام اور بھی ہلکا ہوتا تھا۔اس کے بعد تین رکعت وتر پڑھتے تھے اور بعض بلا وتر چھتیس رکعتیں پڑھتے تھے۔ امام ابن تیمیہ کے اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ گیارہ یا تیرہ رکعات پر(جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فعلی سنت ہے)حضرت عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ کے زمانے میں رکعات کا جو اضافہ ہوا ہے اس کی بنیاد ابوشیبہ کی حدیث نہیں ہے۔ورنہ 36 اور 40 رکعتیں نہ پڑھی جاتیں۔بلکہ یہ اضافہ طولِ قیام کے عوض میں ہے۔گویا یہ ایک اجتہادی امر ہے۔اسی واسطے جن لوگوں نے جتنا ہی قیام ہلکا کیا اتنا ہی انہوں نے رکعات کی تعداد میں اضافہ کر دیا۔یہی بات علامہ زرقانی نے بھی شرح مؤطا میں باجی کے حوالہ سے مزید وضاحت کے ساتھ لکھی ہے۔ملاحظہ ہو زرقانی شرح مؤطا مطبوعہ مصر ص 215 جلد اول۔