کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 193
اس حدیث کو محدثین نے اس کے مناکیر ہی میں شمار کیا ہے۔ملاحظہ ہو حافظ ابن حجر کی تہذیب التہذیب اور حافظ ذہبی کی میزان الاعتدال اور ابن عدی کی الکامل۔اگر واقعی بات وہی ہوتی جو ''علامہ'' مئوی فرما رہے ہیں تو کم از کم اس کے متن کو تو محدثین اول علماء محققین نے منکر نہ قرار دیا ہوتا۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسناد او رمتن دونوں ہی کے اعتبار سے یہ حدیث ضعیف اور منکر ہے۔ رہا مسلمانوں کاعمل تو چلئے فرض کر لیجئے کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور عہد صدیقی کے بعد حضرت عمر اور حضرت علی کے زمانے میں مسلمان تراویح کی بیس ہی رکعات پڑھتے تھے،لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان مسلمانوں میں سے کسی ایک نے بھی یہ کہا ہے کہ ہم بیس اس لئے پڑھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیس ہی پڑھتے تھے؟کتب احادیث کا سار دفتر چھان ڈالیے اور اسکا ایک ایک ورق پڑھ جائیے،مگر پوری کوشش صرف کرنے کے بعد بھی کسی صحابی یا کسی تابعی کا کوئی قول اس قسم کا ہر گز نہیں مل سکتا ..... تو پھر محض بیس رکعات پڑھنے سے اس حدیث کو قوت کیسے پہنچ گئی؟اور اس کا ضعف کیسے دور ہو گیا؟یہ تو اس وقت ہوتا جب کہ عمل کرنے والوں نے اس حدیث کو اپنے عمل کا ماخذ اور مبنی قرار دیا ہوتا۔ اکابر اور مستند علماءِاحناف کے اقوال ہم پہلے پیش کر چکے ہیں جن میں انہوں نے صاف صاف اس بات کا اقرار کیا ہے کہ تراویح کی بیس رکعتیں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہیں ہے بلکہ خلفاء راشدین کی سنت ہے۔ بتائیے اگر اس عمل کے لئے صحابہ نے حدیث ابو شیبہ ہی کو اپنا معمول بہ بنایا تھا تو ان علماءِاحناف نے یہ کیوں نہیں کہاکہ '' یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہیں ہے ''۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ یا تیرہ رکعتیں