کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 192
(فائدہ) ا س سلسلہ میں ہماری یہ بات خیال سے محو نہ ہونی چاہئیے کہ عیسیٰ پر جو مبہم جرحیں کی گئی ہیں ان کے مقابلہ میں بعض مستند اور ماہرِ فن محدثوں نے ان کی توثیق و تعدیل بھی کی ہے۔اور انہی الفاظ کے ساتھ کی ہے جو تعدیل کے باب میں عند المحدثین معروف و متداول ہیں جس کا بیان پہلے گزر چکا۔اس کے برخلاف ابراہیم پر سخت سخت جرحیں کی گئی ہیں ان کے مقابلہ میں کسی محدث نے بھی کوئی ایسا لفظ ابراہیم کی بابت استعمال نہیں کیا ہے جو تعدیل کے باب میں محدثین کی نزدیک بلحاظ فرق و مراتب مستعمل ومتداول ہیں تاکہ کسی ادنیٰ درجہ ہی میں ابراہیم کی تعدیل ثابت ہو سکے۔اسی لئے ''علامہ'' مئوی مجبور ہوئے ہیں کہ یزید بن ہارون نے جو ابراہیم کے ''عدل فی القضائ'' کی تعریف کی ہے اسی کو اپنی منہ زوری سے ابراہیم کے علم او ردیانت داری دونوں کی ''زبردست شہادت'' قرار دے کر کچھ دل کی بھڑاس نکال لیں،لیکن ظاہر ہے کہ محدثین کی شدید جرحوں کے مقابلہ میں اس کی حیثیت ''ڈوبتے کو تنکے کا سہارا'' سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے۔ قولہ: اس کے بعد مجھے یہ بھی عرض کرنا ہے کہ ابو شیبہ کی یہ حدیث چاہے اسناد کے لحاظ سے ضعیف ہو،مگر اس لحاظ سے وہ بے حد قوی اور ٹھوس ہے کہ عہد فاروقی کے مسلمانوں کا اعلانیہ عمل اسی کے موافق تھا۔یاکم از کم آخر میں وہ لوگ اسی پر جم گئے اور روایتوں سے حضرت علی کے زمانے کے مسلمانوں کا عمل بھی اسی کے موافق ثابت ہوتا ہے اور چہار ائمۂ مجتہدین کے اقوال بھی اسی کے مطابق ہیں۔(رکعات ص60) ج: اسناد ہی نہیں بلکہ متن(مضمون حدیث)کے لحاظ سے بھی ابو شیبہ کی