کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 191
کی اس روایت کے سوا کسی دوسرے صحابی سے بسند ضعیف بھی مروی نہیں ہے۔لہٰذا ثابت ہوا کہ کسی دوسرے صحابہ کی حدیث اس کی شاہدبھی نہیں ہے۔ بتائیے اکر عیسیٰ بن جاریہ کے خلاف کوئی انتقامی جذبہ کارفرما نہیں ہے،بلکہ سچ مچ اصول حدیث کے قواعد ہی کی بنا پر اس کی روایت کوردّ کر دیا گیا ہے تو انہی قوا عد کی رو سے ابوشیبہ کی روایت کے رد کر دینے میں کیوں تامل ہو رہا ہے۔عیسیٰ کی طرح اس کے بارے میں بھی کیوں صاف صاف نہیں کہہ دیا جاتا کہ '' ابو شیبہ منکر الحدیث راوی ہے اور منکر الحدیث ہونا آدمی کا ایسا وصف ہے کہ اس کی وجہ سے وہ اس بات کا مستحق ہو جاتا ہے کہ اس کی حدیث ترک کر دی جائے،نہ اس سے حجت پکڑی جائے،نہ اس کو قبول کیا جائے۔لہٰذا ازروئے اصل ابو شیبہ کی یہ روایت قابل قبول نہیں ہو سکتی۔بالخصوص جب کہ حضرت ابن عباس سے اس بات کو نقل کرنے میں وہ متفرد ہے۔دوسرا کوئی اس کا مؤید و متابع موجود نہیں۔نہ کسی دوسرے صحابہ کی حدیث اس کی شاہد ہے ''۔ وضوح دلائل کے بعد اعترافِ حق سے یہ انقباض دیکھ کر تو علامہ فلانی کی اس بات کی تصدیق کرنی پڑتی ہے کہ واذا مر علیہم حدیث یوافق من قلدوہ وانبسطوا واذا مرعلیہم حدیث لا یوافق قولہم او یوافق مذہب غیرہ فانقبضوا۔(ایقاظ ہمم اولی الابصار ص101) یعنی ان مقلدین کا یہ حال ہے کہ اگر ان کو کوئی ایسی حدیث مل جاتی ہے جو ان کے امام کے قول کے موافق ہو(جیسے حدیث ابو شیبہ)تو بڑے خوش ہوتے ہیں،لیکن اگر کوئی ایسی حدیث سامنے آجائے جو ان کے مذہب کے موافق نہ ہو یا کسی دوسرے کے مذہب کی اس سے تائید ہوتی ہو(جیسے حدیث عیسیٰ)تواس کے قبول کرنے سے ان کو بڑا انقباض ہوتاہے۔