کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 187
(رکعات ص..) ج: اوّلاً آپ نے تو بالکلیہ اسی پر اعتماد کیا ہے۔اس لئے کہ سب سے پہلی دلیل اسی کو ٹھہرایاہے۔اس کے بعد کی دلیلوں میں جوآثار آپ نے پیش کئے ہیں وہ تو آ پ کے زعم میں اسی حدیث پر عمل ہے۔گویااصل اعتماد اسی حدیث پر ہوا .. ..... اب آپ فرما رہے ہیں کہ یہ ایسی نہیں ہے کہ اس پر باکلیہ اعتماد کیا جائے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب تک آپ نے جو کچھ لکھا ہے وہ سب غلط ہے اور صرف لڑنے جھگڑنے کا ایک مشغلہ ہے۔ ثانیًا جب یہ حدیث مردود ہے تو استدلال کے قابل کیسے ہو گی؟رہا تائید کا معاملہ تو جس حدیث کا بنیادی راوی مطعون بالکذب ہو وہ تائید کے موقع پر بھی ذکر کرنے کے قابل نہیں ہے۔نیز تائید کے لئے یہ حدیث اس وقت پیش ہو سکتی تھی جب بیس رکعتوں کے ثبوت میں اس کے علاوہ کوئی دوسری مرفوع روایت ہوتی اور یہ اس کی تقویت کے لئے پیش کی جاتی،لیکن جب سارا دارو مدار اسی روایت پر ہے ا س کے سوا کوئی دوسری مرفوع روایت نہیں ہے تو اب تائید کے لئے اس کو ذکر کرنے کا کیا مطلب ہوا؟ قولہ: یہی وجہ ہے کہ امام بہیقی نے رکعات التراویح کی تعداد بیان کرنے کے لئے جو باب منعقد کیا ہے اس میں اس کو بھی ذکر کیاہے۔ ج: اس باب میں امام بہیقی نے سب سے پہلے حضرت عائشہ کی اس روایت کو ذکر کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ا سکو مولانا مئوی نے نہیں بتایا،کیونکہ اس سے ان کے اس زعم کی تردید ہوتی ہے کہ حضرت عائشہ کی اس حدیث کا تعلق تراویح سے نہیں