کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 185
حافظ جلال الدین سیوطی نے اسی بات کو زیادہ وضاحت اور صفائی سے پیش کیا ہے۔چنانچہ لکھتے ہیں: ومن اتفق ہولاء الائمة علی تضعیفہ لا یحل الاحتجاج بحدیثہ مع ان ہذین الا مامین المطلعین الحافظین المستوعبین حکیافیہ ما حکیا ولم ینقلا عن احد انہ وثقہ ولو بادنی مراتب التعدیل وقد قال الذہبی وہو من اہل الاستقراء التام فی نقد الرجال لم یتفق اثنان من اہل الفن علیٰ تجریح ثقة وتوثیق ضعیف ومن یکذبہ مثل شعبة فلا یلتفت الی حدیثہ مع تصریح الحافظین المذکورین نقلا عن الحفاظ بان ہٰذا الحدیث مما انکر علیہ وفی ذالک کفایة فی ردہ وہٰذا احد الوجوہ المردود بہا انتہیٰ بلفظہ(المصابیح ص2) علامہ سیوطی نے ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان کی زیر بحث حدیث پیش کرنے کے بعد اس کے بنیادی راوی ابراہیم کے متعلق حافظ ذہبی کی میزان الاعتدال اور حافظ ابو الحجاج مزی کی تہذیب الکمال کے حوالے سے ائمۂ حدیث کی سخت سخت جرحیں نقل کی ہیں اور ان جرحوں کی روشنی میں اس حدیث اور ا س کے راوی کی بابت اپنامذکورہ بالا فیصلہ لکھا ہے۔جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس راوی کی تضعیف پر بخاری،احمد بن حنبل،ابن معین،نسائی،ابو حاتم الرازی،ابن عدی،ابو داؤد،ترمذی،احوص بن الفضل وغیرہم جیسے ائمہ حدیث اور ماہرین فن متفق ہوں اس میں کی حدیث سے حجت پکڑنا اور استدلال کرنا حلال نہیں ہے۔بالخصوص ایسی حالت میں جب کہ حافظ ذہبی اور حافظ مزی جیسے امامانِ فن و واقفانِ حال نے اس راوی کے متعلق ان جرحوں کے مقابلہ میں کسی محدث سے کوئی ادنیٰ درجہ کی