کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 183
جائے گا؟محمد بن ابی لیلیٰ جو کوفہ کے قاضی تھے ان کی نسبت ساجی نے کہا ہے:کان یمدح فی القضاء واما فی الحدیث فلم یکن حجة(تہذیب التہذیب ص303 ج9)یعنی ''مقدمات کے فیصلے کے بارے میں تو ان کی تعریف کی جاتی ہے لیکن حدیث کی روایت کے باب میں وہ قابل حجت نہیں ہیں ''۔ قولہ: اب رہی قوتِ حافظہ تو ابن عدی کی شہادت سے ثابت ہوتا ہے کہ ابراہیم کا حافظہ بھی بہت زیادہ خراب نہ تھا۔اس لئے کہ ابن عدی نے اقرار کیا ہے کہ ابراہیم کی مرویات میں درست اور ٹھیک حدیثیں بھی ہیں۔(رکعات ص59) ج: لیکن ابن عدی نے یہ بھی اقرار کیا ہے کہ یہ حدیث(جس کو آپ نے اپنے مدعا کی سب سے پہلی دلیل قرار دے کر اس موقع پر پیش کیا ہے)ابراہیم کی ان حدیثوں میں سے نہیں ہے جو درست اور ٹھیک ہیں۔یہ تو ابراہیم کی مناکیری میں سے ہے۔جیساکہ علامہ عینی نے لکھاہے واورد لہ ابن عدی ہٰذا الحدیث فی الکامل فی مناکیرہ یعنی ''ابن عدی نے کامل میں ابو شیبہ کی اس حدیث کو اس کی مناکیر میں ذکر کیا ہے ''۔گو ابراہیم کا حافظہ '' بہت زیادہ خراب''نہ سہی،تاہم جتنا کچھ بھی خراب ہے ا س کا اثر اس حدیث پر بھی پڑا جو غریب حنفی مذہب کا بظاہر سہارا سمجھی گئی۔اس لئے یہ سہارا بھی ٹوٹ گیا اور اب مرفوع حدیث کے نام سے کوئی سہارا باقی نہ رہا۔ (فائدہ) جس طرح ابو شیبہ اس حدیث(زیر بحث)کی روایت میں منفرد ہیں اسی طرح یزید بن ہارون اور ابن عدی کے مذکورہ بالا بیانوں کو ابو شیبہ کی تعدیل و توثیق قرار دینے میں ''علامہ'' مئوی متفرد ہیں۔کسی محدث نے بھی ان صفتوں کی بناء پر ابو شیبہ کی توثیق نہیں کی ہے۔یزید بن ہارون کے اس قول کے