کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 182
نے کہا: ان قومی اذا اختلفوا فی شیٔ اتونی فحکمت بینہم فرضی کلا الفرقین فقال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم مااحسن ہٰذا فمالک من الولد قال شریح و مسلم وعبداللّٰه قال فمن اکبرہم قال قلت شریح قال فانت ابو شریح انتہیٰ(ابو داؤد باب تفسیر الاسم القبی یعنی میری قوم کے لوگ جب کسی بات میں اختلاف اور جھگڑا کرتے ہیں اور وہ معاملہ میرے پاس لاتے ہیں تو میں جو فیصلہ کر دیتا ہوں اس پر دونوں فریق راضی ہو جاتے ہیں۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کام تو تم بہت اچھا کرتے ہو۔مگر اس کی وجہ سے ابو الحکم کہلانا اچھا نہیں۔الحکم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔اب سے تمہاری کنیت ابو شریح ہے۔ علامہ ابن عبد البر لکھتے ہیں: ہانی کانی کنی فی الجاہلیة ابا الحکم لانہ کان یحکم بینہم فکناہ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم بابی شریح اذا وفد علیہ وہو مشہور بکنیتہ(الاستیعاب برحاشیہ اصابہ ص598 ج3) ظاہر ہے کہ فریقین متخامصمین کی رضا مندی ظلم و جو ر کے فیصلے کے ساتھ نہیں ہو سکتی۔اس لئے لازمی طور پر اس کے معنی یہی ہیں کہ ہانی اپنے فیصلے میں عدل و انصاف سے کام لیتے تھے۔گویا اسلام سے پہلے ہی وہ عادل فی القضاء تھے۔ سوچنے کی بات ہے کہ جب عدل فی القضا سے کسی کا مسلمان ہونا لازمی نہیں آتا تو بھلا تدین او رتقویٰ،حفظ اور ضبط کا وہ مرتبہ جو قبول روایت کے لئے محدثین کے نزدیک معتبر ہے اس کا ثبوت صرف اتنی سی شہادت سے کیسے ہو