کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 180
ص17) یعنی ابو داؤ د(طیالسی بصری)بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے شعبہ نے کہا کہ جریر بن حازم کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ تمہارے لئے حلال نہیں ہے کہ تم کوئی حدیث حسن بن عمارہ سے روایت کرو۔کیوں کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ابو داؤد کہتے ہیں کہ میں نے شعبہ سے پوچھا کہ کیسے؟تو شعبہ نے کہا کہ انہوں نے مجھ سے کئی چیزیں حکم کی روایت سے بیان کیں،لیکن تحقیق سے وہ بالکل بے اصل ثابت ہوئیں۔(اس کے بعد شعبہ نے مثال کے طور پر دو چیزیں پیش کی ہیں)۔ امام نووی شرح مسلم میں اسی صفحہ پر لکھتے ہیں:والحسن بن عمارة متفق علی ضعفہ وترکہ(یعنی حسن بن عمارہ کے ضعف اور تر ک پر سب محدثین کا اتفاق ہے)اسی طرح شعبہ کے متعلق لکھتے ہیں:وابو شیبة ہو ابراہیم بن عثمان وکان قاضی واسط وہو ضعیف متفق علٰی ضعفہ انتہیٰ۔(مسلم ص7) '' یعنی ابو شیبہ وہی ابراہیم بن عثمان ہیں۔یہ شہر واسط کے قاضی(جج)تھے۔ضعیف ہیں اور ایسے ضعیف ہیں کہ ان کے ضعف پر سب کا اتفاق ہے''۔ ابراہیم اور حسن دونوں کے حالات کی مماثلت پر غور کیجئے۔پھر یہ بھی دیکھئے کہ وہی حَکم جن کی بابت شعبہ نے ابراہیم کی تکذیب کی ہے۔انہی حکم کے متعلق شعبہ نے حسن بن عمارہ پر بھی یہی جرح کی ہے اور صاف صاف کہا ہے کہ ''ان سے حدیث روایت کرنا حلال نہیں ہے ''۔اب سوچئے کہ امام احمد کا اس محتاط جملہ سے کیا منشاء ہے کہ '' ابراہیم حسن بن عمارہ کے قریب ہے''۔اس کے بعد آسانی سے یہ بات بھی حل ہو جاتی ہے کہ شعبہ نے ابراہیم کی تکذیب کس معنی میں کی ہے؟