کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 18
نظری تو صرف حلقئہ دیوبند کے چند ضدی مولویوں ہی میں پائی جاتی ہے اور یہی ضد نزاع کا باعث بنی ہوئی ہے۔چنانچہ رمضان شریف کے موقع پر مہتمم دارالعلوم دیوبند کی طرف سے ہر سال یہ اعلان ہوتا رہتا ہے کہ ''عشاء کے فرض اور سنت کے بعد بیس رکعت تراویح باجماعت مسنون ہے۔بعض لوگ بارہ یا آٹھ بتلاتے ہیں یہ درست نہیں ہے۔(اخبار الجمعیة دہلی 4اپریل 57ء)ورنہ حنفیہ جو بیس رکعتوں کے قاتل اور اس کے عامل ہیں ان کے اکابر علماء بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے آٹھ ہی رکعتوں کا ثبوت ہے۔لہٰذا اس تعداد کا ادا کرنا '' سنت '' ہے اور اس سے زائد مستحب ہے۔ابن الہمام،ابن نجیم المصری صاحب بحر الرائق،طحطاوی حنفی مذہب کے وہ اکابر ہیں جن کے علم و فضل کے مقابلے میں عصر حاضر کا کوئی حنفی عالم پاسنگ کے برابر بھی نہیں ہوسکتا حواہ وہ اپنے دائرے میں کوئی '' علامہ کبیر'' اور محدث شہیر ہی کیوں نہ ہو۔یہ تینوں اکابر علماء حنفیہ لکھتے ہیں: ان قیام رمضان سنة احدی عشرة رکعة بالوتر فی جماعة فعلہ صلی اللّٰه علیہ وسلم وترکہ بعذر ........ وکونہا عشرین سنةالخلفاء الراشدین ...... فتکون العشرون منہا مستحباً وذالک القدر منہا ہو السنة کالاربع بعد العشاء مستحبة ورکعتان منہا سنة وظاہر کلام المشائخ ان السنة عشرون و مقتضی الدلیل ما قلنا ہٰذا ما قال الشیخ ابن الہمام فی فتح القدیر طبع مصر ص 334ج اوّل وقال ابن نجیم ذکر المحقق فی فتح القدیر ما حاصلہ ان الدلیل یقتضی ان تکون السنة من العشرین ما فعلہ صلی اللّٰه علیہ وسلم منہا ثم ترکہ خشیة ان تکتب علینا والباقی مستحب وقد