کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 179
دوسرے شہر واسط کے جج تھے)اس جرح و تنقید کی اطلاع ہو جائے تو وہ خفا ہو کر ان کے(شعبہ کی)درپے آزار ہو جائیں یا کوئی فساد کھڑا ہو جائے ''۔ حافظ ابو الحجاج مزی کی تہذیب الکمال کے حوالہ سے شعبہ کا یہ قول تحفة الاخیار ص20 اور المصابیح للسیوطی ص3 میں بھی موجود ہے۔ اب بتائیے!اگر ابراہیم کے متعلق شعبہ کا واقعی یہی خیال ہوتا کہ ان سے بھول ہو گئی ہے یا انہوں نے ایک بات بے تحقیق نقل کر دی ہے تو کیا ابراہیم سے روایت لینے کے بارے میں وہ اتنا تشدد اختیار کرلیتے کہ ان کی ساری روایتوں کو ناقابل اعتبار قرار دے دیتے؟اور لکھ دیتے کہ لا تکتب عنہ شیئا یا لا ترو عنہ(ان سے کوئی حدیث مت لو)اتنا ہی نہیں بلکہ اس کی وجہ یہ بتائی کہ:فانہ رجل مذموم(اس لئے کہ یہ برا آدمی ہے)کیا بھول چوک ہوجانے پر بھی کسی انسان کی اس طرح مذمت کی جاتی ہے؟۔ پس شعبہ کی تکذیب کا ہر گز وہ مطلب نہیں ہے جو علامہ مئوی نے سمجھا ہے یا زبر دستی ہم کو سمجھانا چاہتے ہیں۔اسی سلسلے میں ایک بات اور بھی قابل ذکر ہے وہ یہ کہ امام احمد بن حنبل نے اسی ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان کے متعلق کہا ہے منکر الحدیث قریب من الحسن بن عمارة(تہذیب التہذیب ص145 ج1)یعنی ''یہ منکر الحدیث ہے اور حسن بن عمارہ کے قریب ہے '' ..... اب ذرا حسن بن عمارہ کا حال معلوم کیجئے۔امام مسلم اپنی ''صحیح'' کے مقدمہ میں لکھتے ہیں: حدثنا محمود بن غیلان قال ثناء ابو داؤد قال لی شعبة ائت جریر بن حازم فقل لہ لا یحل لک ان تروی عن الحسن بن عمارہ فانہ یکذب قال ابو داؤد قلت شعبة کیف ذاک فقال ثنا عن الحکم باشیاء لم اجد لہا اصلا الخ۔(مسلم شریف