کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 178
کی اس ''نکتہ آفرینی'' کا سارا بھرم کھل جاتا۔او ردنیا جان لیتی کہ شعبہ نے ابراہیم کی تکذیب کس معنی میں کی ہے۔ سنیے!تہذیب التہذیب میں ہے: قال معاذ بن معاذ العنبری کتبت الیٰ شعبة وہو فی بغداد سالہ عن ابی شیبة القاضی اروی عنہ فکتب الیٰ لا ترو عنہ فانہ رجل مذموم واذا قرت کتابی فمزقہ(ص125 ج1) یعنی معاذ عنبری بیان کرتے ہیں کہ شعبہ بغداد میں تھے۔میں نے ان کے پاس خط لکھ کر دریافت کیا کہ کیا ابو شیبہ قاضی واسط(کو اپنا استاد مان کر)ان سے حدیثیں روایت کروں؟تو شعبہ نے مجھے جواب میں لکھا کہ نہین۔ان سے کچھ مت روایت کرو وہ برا آدمی ہے۔شعبہ نے یہ بھی لکھا تھاکہ میرا یہ خط پڑھنے کے بعد پھاڑ دینا۔امام مسلم نے بھی مقدمہ صحیح مسلم میں شعبہ کے اس خط کا ذکر کیا ہے۔لکھتے ہیں: حدثنی عبیداللّٰه بن معاذ العنبری قال نا ابی قال کتبت الیٰ شعبة اسلہ عن ابی شیبة قاضی واسط فکتب الیٰ لا تکتب عنہ شیئا و مزق کتابی انتہیٰ۔(مسلم ص17) شعبہ نے اپنا خط پھاڑ دینے کا حکم کیوں دیا تھا اس کی بابت امام نووی لکھتے ہیں: امرہ بتمزیقہ مخافة من بلوغہ الیٰ ابی شیبة ووقوفہ علٰی ذکرہ لہ بما یکرہ لئلا ینالہ منہ اذا اویترتب علٰی ذالک مفسدة(انتہیٰ....) '' یعنی اس خط کو پھاڑ دینے کا حکم اس خوف سے تھا کہ شائد ابو شیبہ کو(جو