کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 177
ٹھہرایا،بلکہ اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ '' خزیمہ کے سوا ہم نے کسی دوسرے بدری صحابی کی حاضری کو صفین میں نہیں پایا '' انہوں نے ابراہیم کے بیان کی تصدیق نہیں کی ہے۔تاکہ شعبہ کی تکذیب کا ردّ لازم آئے۔علامہ عینی کا حوالہ گزر چکا کہ انہوں نے ابو شیبہ پر محدثین کی جو جرحین بلا کسی رد و انکار کے نقل کی ہیں ان میں سب سے پہلے اسی جرح کو ذکر کیا ہے کہ کذبة شعبة۔اس کے بعد امام احمد بن حنبل،امام بخاری،ابن معین،نسائی وغیرہم کی تضعیف کو بیان کیا ہے۔ امام سیوطی فرماتے ہیں:ومن یکذبہ مثل شعبة فلایلتفت الیٰ حدیثہ(المصابیح ص3)یعنی شعبہ جیسا حاذق محدث جس شخص کی تکذیب کرے اس کی حدیث قابل التفات بھی نہیں۔ بتائیے!یہ باتیں شعبہ کی تکذیب کے ناقابل قبول ہونے کو واضح کرتی ہیں؟یا اس کے بکمال درجہ مقبول ہونے کو؟ قولہ: علاوہ بریں کذب کا اطلاق ہمیشہ تعمد کذب(قصدًا جھوٹ بولنے)پر نہیں ہوتا بلکہ بلا ارادہ محض سہو و نسیان سے خلاف واقعہ بات بولنے پر بھی اسکا اطلاق بکثرت ہوتا ہے......... شعبہ کی تکذیب کا مطلب اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہوسکتا کہ ابراہیم نے بے تحقیق بات نقل کر دی،یا ان سے بھول ہوئی ہے۔(رکعات ص 58) ج: افسوس ہے کہ مولانا مئوی نے اس موقع پر بڑے تجاہل سے کام لیا ہے اور عوام کی ناواقفیت سے پوری طرح فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔اگر وہ رجال کی انہی کتابوں سے جن میں شعبہ کی یہ تکذیب منقول ہے۔شعبہ کے بعض وہ دوسرے اقوال بھی ذکر کردیتے جو انہوں نے ابراہیم کے متعلق کہے ہیں تو ان