کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 175
اپنے مذاکرہ میں ان سے یہ پوچھا ہوتا کہ آپ نے ابراہیم سے یہ بیان کیا ہے یا نہیں؟اگر انہوں نے یہ سوال کیا ہوتا تو ا س کو '' مذاکرہ'' سے تعبیر نہ کرتے۔اہل علم سمجھ سکتے ہیں کہ اس قسم کے سوال کو '' مذاکرہ'' نہیں کہا جاتا۔'' مذاکرہ'' کی تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ شعبہ اور حکم کی گفتگو اس موضوع پر نہ تھی کہ حکم نے ابراہیم سے یہ بیان کیا ہے یا نہیں،بلکہ گفتگو اس موضوع پر تھی کہ جنگِ سفین میں کتنے بدری صحابی شریک تھے۔اور بظاہر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں ان دونوں حضرات نے اپنی اپنی معلومات پیش کی تھیں۔اسی لئے اس کو ''مذاکرہ'' سے تعبیر کیا ہے اور نتیجہ میں بھی فما وجدنا شہد صفین احد من اہل بدر غیر خزیمة کہا ہے۔(یعنی ہم نے سوائے خزیمہ کے کوئی ایسا بدری صحابی نہیں پایا جو صفین میں حاضر رہا ہو)اس عبارت میں فما وجدنا(ہم نے نہیں پایا)کا لفظ خاص طور سے قابل غور ہے۔یہ نہیں کہا کہ:فما اخبرنا باحد ممن شہد صفین من اہل بدر غیر خزیمة(یعنی مذاکرہ کے وقت حکم مجھ کو خزیمہ کے سوا کسی دوسرے کا نام نہ بتا سکے)۔ پس '' علامہ'' مئوی کا یہ کہنا کہ '' حکم نے ابراہیم سے ضرور بیان کیا تھا'' .........نرا تحکم اور محض بے دلیل دعویٰ ہے اور عبارت کے ظاہرالفاظ کے بالکل خلاف ہے اور وہ بیان کیسے کرتے جب کہ ان کو خود ہی اس تعداد کا علم نہ تھا۔جیسا کہ شعبہ نے بتایا۔''علامہ'' مئوی کی یہ دیدہ دلیری بھی قابل داد ہے کہ'' ایک طرف تو بقول ان کے شعبہ جیسا محتاط اور پرہیزگار عالم ہے ''۔جو ابراہیم اورحکم دونوں کا شاگرد ہے اور دونوں کے حالات سے پو ری طرح باخیر ہے وہ اپنی ذاتی معلومات اور پوری واقفیت کی بنا پر اس واقعہ کا سارا الزام ابراہیم پر عائد کرتا ہے۔او رحلف کے ساتھ کہتا ہے کذب واﷲ(بخدا ابراہیم نے جھوٹ کہا ہے)اور