کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 167
اور بیہقی میں ہے۔حافظ ذہبی نے میزان الاعتدال میں ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان کے ترجمہ میں اس حدیث کا ذکر کیا ہے اس میں بھی ''فی غیر جماعة'' کی صراحت موجود ہے۔(میزان ص23 طبع مصر) اس حدیث کا احناف کے دعووں سے کوئی تعلق نہیں اب ہم ''علامہ'' مئوی سے پوچھتے ہیں کہ جب حضرت ابن عباس ہی کا یہ بیان اسی روایت میں بصراحت موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیس رکعتیں اور وتر جماعت کے ساتھ نہیں بلکہ تنہا پڑھتے تھے۔تو اس حدیث کو حنفی مذہب کے ان دعؤوں کے ساتھ کیا لگاؤ ہوا کہ تراویح کی بیس رکعتیں باجماعت سنتِ مؤکدہ ہیں۔ان کا تارک گنہگار اور شفاعت نبوی سے محروم ہے۔''مؤکدہ'' تو بالائے طاق پہلے بیس رکعتوں کا جماعت کے سا تھ نفس سنت نبویہ ہونا تو ثابت کر لیجئے؟ جماعت کے ساتھ بیس رکعت تراویح کو سنت نبویہ کہنا یکسر با طل ہے:۔ ہم پورے وثوق کے ساتھ کہتے ہیں کہ ایک علامہ مئوی کیا،پوری حنفی دنیا مل کر بھی صحیح تو درکنار کوئی ضعیف روایت بھی ایسی نہیں پیش کر سکتی جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا فعل یا تقریر سے جماعت کے ساتھ تراویح کی بیس رکعتوں کا ثبوت ہوتا ہو۔اس لئے اس کو ''سنتِ نبویہ'' کہنا یکسر باطل،قطعًا بے ثبوت اور بالکل بے دلیل دعویٰ ہے۔ ابو شیبہ کوفی کی مذکورہ بالا روایت(جس کے ضعف پر تمام محدثین کا اتفاق ہے)کے علاوہ بیس رکعات کی کوئی مرفوع روایت نہیں ہے۔لیکن انصاف