کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 160
کی رو سے تو یہ اس بات کا قوی قرینہ ہے کہ وہ واقعہ تہجد کا نہیں،تراویح کا ہے۔ قولہ: ا سکے بعد مجھ کو یہ بھی گزارش کرنا ہے کہ تراویح تو بالائے طاق،یہی محقق نہیں ہے کہ یہ رمضان کا واقعہ ہے۔(رکعات ص26) ج: حدیث کے ظاہر سیاق سے تو قطعًا یہ محقق ہے کہ یہ رمضان کا واقعہ ہے لیکن تقلیدی جمود اور مسلکی عصبیت کی ضد میں اگر کوئی شخص یہ تہیّہ کر لے کہ حدیث کو ناقابل قبول اور نا قابل عمل ثابت کرنا ہے تا کہ اس سے اپنی جان چھ٫ٹ جائے تب تو بات دوسری ہے پھر تو ظاہر کے خلاف اور سیاق و سباق کوبالائے طاق رکھ کر جیسے جیسے بھی بے ثبوت احتمالات پیدا کئے جائیں اور جیسی جیسی بھی بے دلیل جرحیں نکالی جائیں وہ کچھ بعید نہیں ہیں۔ قولہ: جس نے اس واقعہ کی روایت میں فی رمضان کا لفظ بول دیا ہے وہ اپنی طرف سے اضافہ اور اصل روایت سے ایک زائد بات ہے۔(رکعات ص......) ج: جناب حافظ عبداللہ صا حب غازی پوری رحمة اللہ علیہ نے قیام اللیل کے حوالہ سے یہ روایت پیش کی ہے۔قیام اللیل میں شروع کے الفاظ یہ ہیں: عن جابر جاء ابی بن کعب فی رمضان فقال یا رسول اللّٰه کان منی اللیلة شٔ قال وما ذاک یا ابی الحدیث(ص90) یعنی حضرت جابر نے بیان کیا کہ ابی بن کعب رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور کہا کہ اے اللہ کے رسول!مجھ سے رات ایک بات ہو گئی ہے۔آپ نے فرمایا وہ کیا بات ہے اے ابی؟(الیٰ آخرہ)اس روایت کے ظاہر سیاق کے لحاظ سے کون کہہ سکتا ہے کہ فی رمضان کا لفظ حضرت جابر کا بیان