کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 155
سے اس کا پتہ لگا لیتے۔جب وہی راوی ہے جس کی تعدیل وہ پہلے ثابت کر چکے ہیں تو اب اس کے اظہار سے گھبرانے کے کیا معنی؟اس بوجھ کو تو وہ اپنے کندھوں سے اتار چکے اور اس کی صحت ثابت کر چکے ہیں۔ رہا یہ سوال کہ پھر قیام اللیل کا حوالہ کیوں نہیں دیا اور صرف مجمع الزوائد کے حوالہ پر اکتفا کیوں فرمایا؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت حافظ صاحب غازی پوری علیہ الرحمہ کی کتاب(رکعات التراویح)تحفت الاحوذی جلد ثانی کی اشاعت سے برسوں پہلے شائع ہوکر اہل حدیث اور احناف،عوام اور خواص سب کے ہاتھوں میں پہنچ چکی تھی۔اور لوگوں کو اس روایت کی سند کا علم ہو چکا تھا،لیکن حافظ صاحب کی کتاب میں مجمع الزوائد کا حوالہ اور ہیثمی کی تحسین کا ذکر نہیں ہے۔غالباً انہوں نے اس کی ضرورت نہیں سمجھی۔کیونکہ پہلی روایت اور اس کی سند کی صحت پر وہ تفصیلی گفتگو فرما چکے تھے۔مگر محدث مبارک پوری علیہ الرحمہ کو احناف کی نفسیات کا زیادہ علم تھا۔انہوں نے قیام اللیل کے حوالہ کے بعد ہیثمی کی تحسین کو نظر انداز کرنا مناسب نہیں سمجھا اور اس طرح اپنے استاذ جناب حافظ صاحب مرحوم کے حوالہ کو مزید تقویت پہنچا دی۔گویا یہ کوئی مستقل حوالہ نہیں،بلکہ دراصل حافظ صاحب کے حوالہ کا تتمہ و تکملہ ہے اور جس طرح دوسری روایت کی بابت ہیثمی کا فیصلہ ''اسنادہ حسن'' اس کی تقویت کا موجب ہے۔ اسی لئے ''علامہ '' مئوی کو یہ حوالہ کھل گیا اور وہ محدث مبارک پوری سے ناراض ہو گئے۔وہ تو سمجھے تھے کہ عیسٰی کو ''مجروح کہہ کر اپنی جان چھڑا لیں گے''مگر جب دیکھا کہ علامہ ہیثمی جیسا مشہور محدث عیسی بن جاریہ کے باوجود اس کی اسناد کو ''حسن'' کہ رہا ہے۔اب تو کسی ایرے غیرے کی یہ بات نہیں چل سکتی کہ ''عیسی'' بن جاریہ کی وجہ سے یہ روایت بھی قابل وثوق نہیں ہے۔تو برہم ہو