کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 154
عناد پر مبنی ہے۔ قولہ:غالباً یہی وجہ ہے کہ اس روایت کو مولانا عبدالرحمن صاحب قیام اللیل سے نہیں نقل کرتے۔حالانکہ ان کے استاذ حافظ صاحب نے اسی سے نقل کیا۔مولانا خوب سمجھتے تھے کہ قیام اللیل سے نقل کرنے میں اس کی اسناد کو صحیح ثابت کرنا پڑے گا اور یہ ممکن نہیں ہے۔اس لئے انہوں نے مجمع الزوائد سے نقل کیا کہ اس میں تو سند مذکور ہوتی نہیں ہے۔لہذا سند کو ذکر کرنے اور اس کی صحت ثابت کرنے کا بوجھ نہ پڑے گا اور چونکہ ہیثمی نے اس کی سند نقل کیے بغیر اس کو حسن کہ دیا ہے لہذا دوسروں کو مرعوب بھی کر دیا جائے گاکہ دیکھو ہیثمی نے اس کی سند کو حسن کہا ہے،لیکن افسوس ہے کہ یہ تدبیر کارگر نہیں ہوئی۔قیام اللیل سے اس کی سند کا حال زار معلوم ہو گیا۔(رکعات ص) ج:داد دیجئے ''علامہ'' مئوی کو اس ''ذہانت'' کی۔کیسی دور کی کوڑی لائے ہیں۔ ع تیر ظفر اس طبعِ خدا داد کو شاباش کوئی پوچھے ان بھلے مانس سے کہ حضرت حافظ غازی پوری رحمة اللہ علیہ کے بتانے سے(اپنی تحقیق سے نہیں)جب آپ کو اس کی سند قیام اللیل میں مل گئی اور پتہ چل گیا کہ اس روایت کی سند میں بھی وہی عیسیٰ بن جاریہ ہیں جن کی جرح و تعدیل پر محدث مبارک پوری قدس سرہ تحفت الاحوذی میں گفتگو فرما چکے ہیں …… تو اب اس تک بندی کا کیا موقع رہا کہ مولانا مبارک پوری قدس سرہ نے جن بوجھ کر اس کی سند چھپانے کی کوشش کی ہے۔اس تہمت کی گنجائش تو اس وقت نکل سکتی تھی جب کہ اس کی سند میں کوئی ایسا راوی ہوتا جس کی جرح و تعدیل پر شیخ مبارک پوری مرحوم نے کوئی گفتگو نہ فرمائی ہوتی اور آپ اپنی وسعتِ معلومات