کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 149
ولم ارفی شیٔ من طرقة بیان عدد صلوتہ فی تلک اللیالی لکن روی ابن خزیمة وابن حبان من حدیث جابر قال صلی بنا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فی رمضان ثمان رکعات ثم اوتر الحدیث۔(فتح الباری طبع ولی ص597) حافظ نے اس روایت پر قطعًا کسی قسم کی کوئی جرح نہیں کی ہے،بلکہ بلا کسی ردّ و انکار اور جرح وقدح کے اسستدلالاً اس کو پیش کیا ہے۔مولانا مئوی کے اختیار کردہ اصول کے مطابق یہ زبردست دلیل ہے۔اس بات کی کہ حافظ کے نزدیک یہ روایت بلا شبہہ صحیح اور قابل احتجاج ہے۔ (2) دوسری بات یہ ہے کہ احناف وتر کے وجوب کے قائل ہیں۔حافظ ابن حجر نے درایہ فی تخریج احادیث الہدایہ میں ان کے اس مسلک کی تردید کی ہے اور حنفیہ کے خلاف دلیل میں اسی حدیث کو پیش کیا ہے۔لکھتے ہیں: ویعارض القول بوجوبہ حدیث جابر ان النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم قام بہم فی رمضان فصلی ثمان رکعات واوتر ثم انتظروہ من القابلة فلم یخرج الیہم فسالوہ فقال خشیت ان یکتب علیکم الوتر اخرجہ ابن حبان ہٰکذا انتہی۔(ص113) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حافظ ابن حجر کے نزدیک یہ حدیث نامقبول نہیں ہے۔بلکہ مقبول اور قابل احتجاج ہے۔ (3) علامہ جلال الدین سیوطی نے ابن عبدالبر کا یہ قول بلا ردّ و انکار نقل کیا ہے: واخرج ابن حبان فی صحیحہ من حدیث جابر انہ صلی اللّٰه علیہ وسلم صلی بہم ثمان رکعات ثم اوتر وہٰذا صح انتہیٰ۔(تنویر الحوالک