کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 147
جارحین کی فہرست میں بھی ہے)امام صاحب کی توثیق کی ہے(ملاحظہ ہو تحقیق الکلام حصہ دوم از ص 138 تا 147 طبع اول)۔ اب ''علامہ'' مئو ی کے زعم کے مطابق بقاعدہ ذہبی،امام صاحب نہ ثقہ ہو سکتے ہیں اور نہ ضعیف۔لہذا وہ مجہول الحال کے حکم میں ہوں گے۔تاوقت یہ کہ ان کا قرار واقعی حال معلوم نہ ہو جائے ان کی کوئی حدیث کار آمد نہیں ہو سکتی۔ اگر ''علامہ'' مئوی امام اعظم ہی کی صف میں عیسی بن جاریہ کو بھی کھڑا کرتے ہیں تو چلئے یہی سہی۔ہم کو بھی منظور ہے،لیکن صاف صاف اس کا اعلان کریں کہ امام ابوحنیفہ اور عیسی بن جاریہ دونوں ایک ہی درجہ کے راوی ہیں۔ ع مشکل بہت پڑے گی برابر کی چوٹ ہے عیسی بن جاریہ کے خلاف ''علامہ'' مئوی کے ترکش کا یہ آخری تیر تھا۔والحمد للہ وہ بھی نشانہ سے خطا کر گیا اور الٹا انہی کو زخمی کر گیا۔اب ان کا میگزین بالکل خالی ہے۔اس لئے عیسی کی جرح و تعدیل کی بحث بھی ختم ہو گئی۔ آپ نے دیکھا کہ ''علامہ'' مئوی نے اس حدیث سے جان چھڑانے کے لئے کیسے کیسے ''کرتب'' دکھائے اور کس کس طرح ہاتھ پاؤں مارے … مگر نہ عیسی کا ضعف ثابت کر سکے اور نہ اس کی حدیث کا ناقابل قبول ہونا۔اسلئے کہ شعبدہ بازیوں سے حقیقت نہیں بدلا کرتی۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ حضرت جابر کی زیر بحث حدیث کے متعلق اکابر علماء امت کی(جن میں اکثر حنفی ہیں)کچھ شہادتیں بھی آپ کے سامنے پیش کر دیں۔جن سے ثابت ہوتا ہے۔کہ ان کے نزدیک یہ حدیث صحیح اور قابلِ حجت ہے۔اس سے اچھی طرح واضح ہو جائے گا کہ ''علامہ'' مئوی نے اس حدیث کی اسناد پر جو رد و قدح کی ہے وہ محض ان کی زبردستی ہے اور ضد میں آ کر انہوں نے