کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 146
ابن حجر کی اس تفریع کی رو سے تو عیسیٰ بن جار یہ کی حدیث قابل ترک قرار نہیں پاتی کیونکہ اس کے ترک پر سب کا اتفاق نہیں ہے۔ ''علامہ'' مئوی نے حافظ کی یہ تفریع نقل کرنے سے قصداً گریز کیا ہے،کیونکہ ان کے منشا کے خلاف ہے حالانکہ ذہبی کے فیصلہ کے ساتھ ہی اسی شرح نخبہ میں یہ کلام بھی موجود ہے اور اس کی جگہ اپنی طرف سے ایک دوسری تفریع ذہبی کے اس فیصلہ کے ساتھ زبردستی جوڑ دی ہے۔گویا ابھی چند منٹ پہلے حضرت محدث اعظم مبارک پوری غفراللہ کو جس الزام میں بلا وجہ مطعون کر رہے تھے،خدا کی شان خود ہی اس کا شکار ہو گئے سچ ہے: گر خدا خواہد کہ پردہ کس درد میلش اندر طعنہ پاکاں دہد بہر حال ابن حجر کی اس تفریع سے اور اس بات سے بھی قطع نظر کرتے ہوئے کہ جس راوی کی جرح و تعدیل کی بابت ائمہ کا اختلاف ہو۔عندالمحدثین اس کا کیا حکم ہے،بالفرض اگر ہم ''علامہ'' مئوی کی اس خوش فہمی کو تسلیم کر لیں کہ ایسا راوی بقاعدہ:ذہبی ثقہ بھی نہیں اور ضعیف بھی نہیں۔لہذا اس کا حکم مجہول الحال راوی کا ہو گا … تو یاد رکھئے کہ اس کی زد صرف غریب عیسی بن جاریہ ہی پر نہیں پڑے گی،بلکہ عیسی سے زیادہ اس کی چوٹ امام اعظم ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ پر پڑے گی۔ اس لئے کہ اگر عیسی کی تضعیف چھ چھ ماہروں نے کی ہے تو امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کی تضعیف نو نو ماہروں نے کی ہے۔امام بخاری،نسائی،ابن المدینی،ابن عبدالبر،دارقطنی،ابن عدی،ابن القطان،ذہبی،سفیان ثوری۔ان سب نے روایت حدیث کی بابت(ورع و تقوے سے قطع نظر)امام صاحب پر جرح کی ہے اور ابن معین،ابن المدینی،شعبہ،سفیان،ان چار ماہروں نے(جن میں بعض کا نام