کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 144
زیادہ سے زیادہ جو کچھ کہا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ ایکہی بات کو دو عالموں نے دو الگ الگ موقعوں پر پیش کیا ہے۔یا یہ کہ دو الگ الگ نتیجے نکالے ہیں،لیکن کسی صاحبِ ذوق سے پوچھو کہ اگر کلام اس کی صلاحیت رکھتا ہے کہ اس سے مختلف تفریعات پیدا کی جا سکیں تو ایسا کرنا اہل علم کے لئے کوئی نقص اور عیب کی بات ہے یا ہنر اور کمال کی؟پھر بلا وجہ پروپیگنڈائی انداز میں ایک سوال اٹھانااور طنز و تعریض کے فقرے استعمال کر کے عوام کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کرنا کہاں کی حق پسندی اور دیانتداری ہے؟ قولہ:حافظ ابن حجر نے یہ نہیں کہا ہے کہ ذہبی اہل استقراء تام سے ہیں،تو احادیث کی اسناد پر ان کا حکم صواب یہ تو مولانا مبارک پوری نے اپنی طرف سے لکھا ہے اور ذہبی کے صاحبِ استقراء تام ہونے پر اس بات کو زبردستی متضرع کر لیا ہے۔(رکعات ص 33) ج:یہ ضابطہ کلیہ تو مولانا مبارک پوری نے بھی نہیں لکھا ہے اور نہ ذہبی کے صاحبِ استقراء تام ہونے پر اس کو متضرع کیا ہے۔یہ تو آپ نے اپنی طرف سے لکھا ہے اور زبردستی مولانا مبارک پوری کے انتقال فرما جانے کے چوبیس برس بعد ان کے ذمہ لگادیاہے انا للہ الخ۔ قولہ:ورنہ جولوگ استقراء کے معنی جانتے ہیں وہی اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ جب کسی راوی کی جرح و تعدیل کا معاملہ پیش آ جائے تو اس موقع پر کسی اناڑی کی بات کو صحیح قرار دیا جائے گا۔یا اس کی جو نقد رجال کے باب میں صاحب استقراء تام ہو۔ظاہر ہے کہ اناڑی کے مقابلہ میں ماہر فن ہی کی بات قابل قبول ہو گی۔بس یہی بات محدث مبارک پوری علیہ الرحمہ نے بھی کہی ہے۔جس کا تفصیلی بیان پہلے گذر چکا۔فافہم و تذکر۔