کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 143
ہے حالانکہ یہ عبارت ابن حجر اور ذہبی دونوں کے کلاموں کا مجموعہ ہے۔اس عبارت میں لم یجتمع سے لے کر آخر تک یہ ذہبی کا مقولہ ہے۔اسی ٹکڑے کو مولانا مبارک پوری نے چھوڑ دیا ہے۔اور وھو من اھل الاستقراء التام فی نقد الرجل بس یہی ٹکرا حافظ ابن حجر کا ''کلام'' ہے۔اس کو محدث مبارک پوری علیہ الرحمہ نے پورے کا پورا نقل کیا ہے۔صرف اتنا تصرف کیا ہے کہ وھو کے بجائے الذھبی لکھا ہے۔اس کے علاوہ اس جملہ کا ایک نقطہ بھی مولانا مبارک پوری نے نہیں چھوڑا ہے۔پھر یہ کیسا صریح افتراء ہے کہ ''ابن حجر کا کلام بالکل ادھورا نقل کیا ہے ''۔(ذرا بالکل کی تاکید پر بھی غور کیجئے)۔کیا ایسے لوگوں کو بھی زیب دیتا ہے کہ وہ '' شان تقدس'' اور کی باتیں کریں؟ اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت زاہد دامن کو ذرا دیکھ ذرا بندِ قبا دیکھ (ب) رہا دوسرا الزام تو مانا کہ نقد رجال کے باب میں ذہبی کو اہل استقراء تام قرار دے کر حافظ ابن حجر نے ان کے جس فیصلے کی اہمیت ثابت کی ہے،مولانا مبارک پوری نے اس کو چھوڑ دیا اور اس کی بجائے اپنی طرف سے ایک دوسرے فیصلہ کو قوت پہنچائی … لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرنے سے حافظ ابن حجر کے کلام کو کوئی نقصان پہنچا؟کیا اس سے ابن حجر کے کلام کا منشاردووبدل ہو گیا؟یا کیا اگر مولانا مبارک پوری حافظ ذہبی کا وہ فیصلہ اپنی کتاب میں نقل کر دیتے تو اہل حدیث کے مسلک کو نقصان پہنچ جاتا؟اور اب جو حذف کر دیا تو اس سے مسلک اہل حدیث کوکوئی قوت پہنچ گئی؟اگر ان سب سوالوں کا جواب نفی میں ہے،تو کوئی انصاف سے بتائے کہ پھر ایسی بات کا ذکر چھوڑ دینا آخر ''شان تقدس'' اور ''عالمانہ احتیاط'' کے منافی کیسے ہوا؟۔