کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 142
ان فریب کاریوں سے بالکل پاک ہے۔انہوں نے کلام کے ا س حصہ کو چھوڑ دیا ہے،نہ وہ اہل حدیث کے مذہب کے خلاف ہے اور نہ اس کے چھوڑ دینے سے حافظ کے کلام کا منشا ردوبدل ہوتا ہے۔ ما اہل حدیثیم دغارا انشنا سیم صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست ثانیاً:سرے سے یہ الزام ہی غلط ہے کہ مولانا مبارک پوری نے ''ابن حجرکا کلام بالکل ادھورا نقل کیا ہے''۔''علامہ'' مئوی کے کلام کا جو اقتباس ہم نے اوپر نقل کیا ہے اس پر غور کیجئے۔اس میں محدث اعظم مبارکپوری پر دو الزام لگائے گئے ہیں: (الف) انہوں نے ابن حجر کا کلام ادھورا نقل کیا ہے۔ (ب) ابن حجر نے ذہبی کو اہل استقراء تام سے قرار دے کر ان کے جس فیصلہ کی اہمیت ثابت کی ہے،اس کو چھوڑ کر اپنی طرف سے ذہبی کے ایک دوسرے فیصلہ کی قوت ثابت کرنے لگے۔ (الف) پہلے الزام میں کہاں تک صداقت ہے اس کو معلوم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ پوری عبارت آپ کے سامنے ہو،جو اس وقت زیر بحث ہے۔مولانا مئوی نے وہ عبارت شرح نخبہ کے حوالے سے خود ہی نقل کی ہے۔لکھتے ہیں حافظ ابن حجر کی پوری عبارت یہ ہے قال الذھبی وھو من اھل الاستقراء التام فی نقد الرجال لم یجتمع اثنان من علماء ھذ الشان قط علی توثیق ضعیف ولا علی تضعیف ثقة انتھی(رکعات ص 33) ''علامہ'' مئوی اپنی خوش فہمی سے اس پوری عبارت کو حافظ ابن حجر ہی کا ''کلام'' سمجھ رہے ہیں۔اسی بنیاد پر انہوں نے پہلے الزام کی عمارت کھڑی کی