کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 141
مقامات میں ایسا کیا ہے۔اور ہم نے آپ کو اس پر ٹوکا ہے یا جیسے آپ کے ''علامہ'' شوق نیموی نے اپنی کتاب ''آثارالسنن'' میں جا بجا یہ حرکت کی ہے اور حضرت محدث مبارکپوری علیہ الرحمہ نے ''ابکار المنن'' میں اس پر گرفت کی ہے۔مثلاً ایک جگہ لکھتے ہیں: قلت قد خان النیموی فی نقل کلام الحافظ من الدرایة فلم ینقلہ بتمامہ بل نقل بقدر ما ینفعہ و ترک ما یضرہ فعلینا ان ننقل کلام الحافظ بتمامہ وکما لہ لتنجلی حقیقة الحال(ابکار المنن ص 63) یعنی نیموی نے حافظ ابن حجر کے کلام کو ''درایہ'' سے نقل کرنے میں خیانت کی ہے۔جتنا حصہ اپنے مذہب کے لئے مفید معلوم ہوا اتنا نقل کر دیا اور جو حصہ مضر معلوم ہوا اس کو چھوڑ دیا۔اس لئے ضروری ہے کہ میں حافظ کا پورا کلام یہاں نقل کر دوں،تاکہ حقیقتِ حال واضح ہو جائے۔ یا یہ صورت ہو کہ کسی عبارت کے بعض حصے کو نقلکرنے اور بعض حصے کو چھوڑ دینے سے کلام میں منشا بالکل ردوبدل اور الٹ پلٹ ہو جائے۔جیسے آپ نے ابن تیمیہ،سیوطی،شوکانی وغیرہ کی عبارتوں کے بعض حصے نقل کرکے ان کو اس بات کا قائل بنادیا کہ ان کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح کا کوئی عدد معین ثابت نہیں۔حالانکہ ان کے کلام کا جو حصہ آپ نے چھوڑ دیا ہے اس میں یہ صراحت موجود ہے کہ فعل نبوی سے گیارہ رکعت تراویح ثابت ہے۔ الغرض جب تک کسی کلام کے حذف و اختصار میں کوئی چالاکی اور فریب کاری مضمر نہ ہو اس وقت تک یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے اور ہم سر افتخار اونچا کر کے کہتے ہیں کہ بحمد للہ محدثِ اعظم مبارک پوری رحمة اللہ علیہ کا دامن