کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 139
ہی نہیں ہے اور نہ یہ کہا گیا ہے کہ ذہبی کے فیصلہ کے مقابلہ میں اصول و قواعدِ محدثین کی پابندی بھی چھوڑ دی جائے گی۔ قولہ:کوئی انصاف سے بتائے کہ جب ذہبی رجال کے حالات کا پورا پورا استقراء رکھتے ہیں تو محمد بن عبدالملک پر ان کی جرح بے سبب نہیں ہو سکتی … لیکن جب تک وہ اسباب بیان نہ کریں،مولانا عبدالرحمن ان کی جرح کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔تو ہم سے وہ کیوں مطالبہ کرتے ہیں کہ ذہبی نے جو اسناد کو وسط کہہ دیا ہے بے سبب بیان کئے ہوئے اس کو تسلیم کر لو۔اس لئے کہ ذہبی اہل استقراء تام سے ہیں۔کیا حافظ ابن حجر کا حوالہ صرف ہم پر رعب جمانے کے لئے ہے۔اپنے عمل کرنے کے لئے نہیں ہے(رکعات ص 23) ج:''علامہ'' مئوی اپنے زعم میں اس اعتراض کو بڑا گہرا ''نقطہ'' اور بڑی شدید ''گرفت'' سمجھ رہے ہیں۔اسی لئے قدرتی طور پر ان کی طبیعت میں جوش اور قلم میں زور پیدا ہو گیا ہے اور کیا عجب ہے جو حلقہ ارادت بھی جھوم اٹھا ہو۔اور ''علامہ'' کو اس ''نکتہ'' پر خوب خوب داد ملی ہو۔لیکن ''علامہ'' کو خبر نہیں کہ ذہبی ابن حبان،ابن حجر یہ تینوں حضرات حذاقِ فن سے ہیں۔اور ہم ابھی بتا چکے ہیں کہ محمد بن عبدالملک پر اگر ذہبی نے جرح کی ہے تو ابن حبان اور حافظ ابن حجر نے اس کی توثیق و تعدیل کی ہے۔اس طرح یہ راوی مختلف فیہ ہو جاتا ہے اور مختلف فیہ راوی کے متعلق جمہور محدثین کا فیصلہ یہ ہے کہ جرح تو مفسر ہی مقبول ہو گی۔بغیر سبب بیان کئے ہوئے جرح کا اعتبار نہیں ہو گا۔ہاں تعدیل کے لئے سبب کا بیان کرنا ضروری نہیں ہے۔یہ مبہم بھی مقبول ہو جائے گی۔اس کے کچھ حوالے ہم پہلے نقل کر چکے ہیں۔مزید تفصیل کے لئے کتاب الرفع و التکمیل ص 10،11