کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 135
فلما حکم الذھبی بان اسنادہ وسط بعد ذکر الجرح والتعدیل فی عیسی بن جاریة وھو من اھل الاستقراء التام فی فقد الرجال فحکمہ بان اسنادہ وسط ھو الصواب ویؤیدہ اخراج ابن خزیمة وابن حبان ھذ الحدیث فی صحیحیھما ولا یلتفت الی ما قال النیموی ویشھد لحدیث جابر ھذا حدیث عائشة المذکورہ ما کان یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرة رکعة انتھی(تحفة الاحوذی ص 74 ج 2) سیاق کلام پر غور کیجئے!صاف ظاہر ہے کہ حضرت الشیخ نے نیموی کے قول لیس بصواب کے جواب میں ذہبی کے اس فیصلہ کو ھوالصواب کہا ہے۔کوئی ضابطہ کلیہ نہیں بیان کیا ہے کہ ''نقد رجال کے باب میں ذہبی جو حکم فرمائیں وہی صواب''۔اور پھر ذہبی کے اس فیصلہ کی مولانا نے جو تصویب فرمائی ہے تو محض تقلیداً نہیں بلکہ ساتھ ہی اس کی تین دلیلیں دی ہیں۔ 1۔ پہلی دلیل تو یہ دی کہ ذہبی نے یہ فیصلہ عیسی بن جاریہ کے متعلق جرح و تعدیل دونوں کے ذکر کرنے اور ان دونوں کے فرقِ مراتب کو سمجھنے کے بعد کیا ہے اور نیموی کی نگاہ صرف جرحوں پر ہے۔جیسا کہ مؤلفِ ''رکعاتِ تراویح'' کو خود اس کا اعتراف ہے۔لکھتے ہیں: ''حافظ ذہبی کا اس کی اسناد کو وسط کہنا خود انہی کی ذکر کی ہوئی ان جرحوں کے پیش نظر جو انہوں نے عیسیٰ کے حق میں ائمہ فن سے نقل کی ہیں۔حیرت انگیز اور بہت قابل غور ہے۔اسی وجہ سے علامہ شوق نیموی نے اس کو ناصواب قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ متوسط نہیں بلکہ اس سے بھی گھٹیا ہے ''۔(ص 31)۔