کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 132
الفیہ میں،سخاوی نے فتح المغیث میں اور دوسرے تمام محدثین نے اس لفظ کو الفاظ تعدیل میں متوسط درجہ ہی کی تعدیل قرار دیا ہے۔کسی نے بھی اس سے کم درجہ میں اس کو شمار نہیں کیا ہے۔ اس کے بعد حافظ ذہبی کا اسنادہ وسط کہنا عین صواب ہے اس کو ناصواب کہنے والے معاند او رمحدثین کی تصریحات سے نابلد ہے۔اسی واسطے حضرت محدث اعظم علامہ مبارکپوری قدس سرہ نے تحفة الاحوذی میں نیموی کی تردید او ر حافظ ذہبی کے اس فیصلہ کی تصویب فرمائی ہے۔اور نیموی کے مقابلہ میں ذہبی کا فضل و کمال فن ثابت کرنے کے لئے ایک دوسرے ماہر فن محدث(حافظ ابن حجر)کی شہادت پیش کی۔جس کا منشا یہ تھا کہ نیموی جیسے اناڑی لوگوں کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ذہبی جیسے باکمال پر تنقید کریں۔ ایاز قدر خود بشناس ''علامہ'' مئوی کو یہ بات بہت بری لگی ہے۔ا یسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت الشیخ مبارکپوری کے خلاف پہلے ہی سے بھرے بیٹھے تھے۔اک ذرا سی ٹھیس لگتے ہی ابل پڑے ہیں اور خوب دل کے پھپھولے پھوڑے ہیں۔تقریبًا تین صفحے اسی خفگی کی نذر کر دئیے۔لکھتے ہیں: قولہ: او رمولانا عبدالرحمن مبارکپوری نے شوق نیموی کے اس کلام کا جو ردّ کیا ہے وہ قطعًا ناقابل التفات اور محض مقلدانہ ہے جو ان کی شان کے بالکل خلاف ہے۔ ج: ''ناقابل التفات'' تو ضرور کہیے۔اس لئے کہ ا س کے بغیر اس حدیث سے جان چھڑانے کی کوئی اور صورت ہی نہیں ہے۔لیکن '' مقلدانہ'' کیسے ہے؟کیا حافظ ابن حجر نے بھی نیموی کے جواب میں یہی بات کہی ہے۔نیموی نہ سہی