کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 131
کی ہیں۔ابن معین نے عندہ مناکیر کہا ہے اور نسائی نے منکر الحدیث اور ایک قول کے مطابق متروک کہا ہے۔نسائی تو متعنت فی الرجال مشہور ہیں۔خود حافظ ذہبی نے بھی اسی میزان میں ان کو متعنت قرار دیا ہے۔دیکھو حارث اعور کا ترجمہ۔اس لئے کہ ان کی جرح تو بجائے خود معتبر نہیں۔'' علامہ '' مئوی نے خود بھی اس کو''ا علام المرفوعہ '' میں تسلیم کیا ہے۔جیسا کہ پہلے اس پر تفصیلی بحث گزر چکی۔رہے ابن معین تو قطع نظر اس کے ان کو بھی متعنتین میں شمار کیا گیاہے۔ان کے عندہ مناکیر کہنے سے عیسیٰ کا ضعیف ہونا لازم نہیں آتا۔حافظ سخاوی نے کہا ہے کہ اس قسم کے الفاظ کبھی ایسے راوی پر بھی اطلاق کر دیتے ہیں جو خود ثقہ ہوتا ہے لیکن ضعفاء سے منکر حدیثیں روایت کرتا ہے۔ان کے الفاظ یہ ہیں: وقد یطلق ذلک علی الثقة اذا روی المناکیر عن الضعفاء قال الحاکم قلت الدار قطنی فسلیمان بنت شرجیل قال ثقة قلت الیس عندہ مناکیر قال یحدث بہا عن قوم ضعفاء اما ہو فثقة انتہیٰ(الفع والتکمیل ص14) ان دونوں جرحوں کے بعد امام ابو زرعہ کی تعدیل نقل کی ہے جنہوں نے لا باس بہ کہا ہے۔میزان کے شروع میں حافظ ذہبی نے جرح و تعدیل کے کچھ الفاظ بھی ذکر کئے ہیں۔الفاظ تعدیل کے متعلق لکھتے ہیں: فاعلی العبارات فی الرواة المقبولین ثبت حجة وثبت حافظ وثقة متقن وثقة تم ثقة ثم صدوق،ولا باس بہ ولیس بہ باس ثم محلہ الصدق وجید الحدیث الخ: لفظ ثم سے ذہبی نے جو فرقِ مراتب کی طرف اشارہ کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک لا باس بہ متوسط درجہ کا لفظ ہے۔حافظ عراقی نے شرح