کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 129
وص30) ج: اولاً یہ شبہہ خود '' علامہ '' مئوی کے قصور فہم یا قصور بیان کا نتیجہ ہے۔کسی اہل حدیث کے ذہن میں تو یہ شبہہ پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔اس لئے کہ جب حافظ ذہبی کی یہ عادت ہی نہیں ہے کہ وہ صرف ایسی روایت ذکر کرتے ہیں جو فی الواقع منکر اور ضعیف ہوتی ہے۔یا ان کے نزدیک ضعیف ہوتی ہے۔تو حافظ ذہبی اگر اس روایت کے بعد اسنادہ وسط نہ بھی کہتے تب بھی محض میزان الاعتدال میں نقل کرنے کی وجہ سے کوئی اہلحدیث اس کے ضعیف اور منکر ہونے کا جزم نہ کر لیتا۔ہاں البتہ یہ سمجھتا کہ اس راوی یا روایت پر کچھ جرحیں کی گئی ہیں،مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ و ہ جرحیں مقبول اور ثابت بھی ہوں۔ ثانیاً: اس شبہہ کا جو جواب مولانا مئوی نے دیا وہ بھی اصلاً غلط ہے۔محدثین کا یہ اصل بجائے خود بالکل صحیح اور مسلم ہے کہ ا سناد کی صحت متن کی صحت کو مستلزم نہیں،لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ صحیح الاسناد حدیثوں سے جان چھڑانے کے لئے اس قاعدہ کو بہانہ بنا لیا جائے اورجب کوئی بوالہوس کسی حدیث کو اپنی مذہب اور آبائی معمول کے خلاف پائے تو یہ کہہ کر اس کو ردّ کر دے کہ اسناد کی صحت متن کی صحت کومستلزم نہیں۔ محدث اعظم حضرت مبارک پوری قُدِّسَ سرَہ نے ابکار المنن وغیرہ میں جہاں جہاں یہ اصل پیش کیا ہے،مئوی صاحب کا طرح کہیں بھی صرف اتنا کہہ دینے پر اکتفا نہیں کیا ہے،بلکہ ساتھ ہی دوسرے وجوہ دلائل سے اس کے متن کا معلول ہونا بھی ثابت کیا ہے۔پس حافظ ذہبی کے کلام سے اس متن کی '' نکارة'' کا کوئی ثبوت دئیے بغیر اسا قاعدہ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنا اور یہ کہہ دینا کہ حافظ ذہبی کے نزدیک حدیث کا متن منکر ہے۔محض تحکم اور سرتاپا بے دلیل