کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 126
روایت ہوتی ہے تو وہ اس منکر روایت کو بھی ذکر کرتے ہیں۔اصل میں یہ طرز ابن عدی کا ہے جو انہوں نے اپنی کتاب کامل میں اختیار کیا ہے۔انہی کا طرز حافظ ذہبی نے اختیار کیا ہے۔(رکعات 29) ج: افسوس ہے کہ'' علامہ'' مئوی نے اپنی عادت کے مطابق یہاں بھی ''ہاتھ کی صفائی'' کا وہ کرتب دکھایا ہے کہ دیانت اپنا سر پیٹ کر رہ گئی۔محض اس لئے کہ عیسیٰ کی یہ روایت(جو حنفی مذہب کے خلاف ہے)کسی طرح ضعیف اور منکر ثابت ہو جائے۔ابن عدی اور ذہبی کے متعلق بات کا صرف ایک رخ پیش کیا گیا ہے اور اسی تلبیس کی وجہ سے صورت معاملہ بالکل مسخ ہو گئی ہے۔ حافظ ابن حجر مقدمہ فتح الباری میں عکرمہ کے ترجمہ میں ابن عدی کے متعلق لکھتے ہیں: ومن عادتہ فیہ رای من عدة ابن عدی فی الکامل ان یخرج الاحادیث التی انکرت علی الثقة او علی الثقة اور علی غیر الثقة انتہیٰ۔(ص502 طبع فاروقی دہلی) یعنی ابن عدی کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنی کتاب کامل میں ثقہ او رغیر ثقہ(مجروح اور غیر مجروح)دونوں قسم کے راویوں کی ان کی روایات کا ذکر کرتے ہیں۔جن پر انکار کیا گیا ہے۔یا جن کو منکر کہا گیا ہے۔ ابن عدی کا یہ صنیع صرف مجروح راوی کے ساتھ خاص نہیں ہے۔جیسا کہ مئوی صاحب کے بیان سے معلوم ہوتا ہے اور نہ یہ بات ہے کہ ''وہ روایت منکر ہوتی ہے''۔ جیسا علامہ مئوی کہہ رہے ہیں،بلکہ روایت ذکر کرتے ہیں جس پر جرح و انکارکیا گیا ہے۔یہ ضروری نہیں ہے کہ فی الواقع وہ منکر ہو بھی۔