کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 125
۔رواةِ حدیث میں بہت سے ایسے راوی ہیں جن کا کوئی متابع نہیں اور نہ دوسرے صحابہ کی روایت اس کی روایت کی شاہد ہے،لیکن اس کی روایت عند المحدثین مقبول اور معتبر ہے۔مثالیں نقل کروں تو بات لمبی ہو جائے کی۔اس لئے صرف حوالے پر اکتفا کرتا ہوں۔ملاحظہ ہو: شرح نخبہ ص 14،وظفر الامانی ص 28،29،و تدریب الراوی طبع مصر ص 84،و ص116،و ص224۔ دور کیوں جائیے جامع ترمذی ہی کو دیکھ لیجئے،کتنی مقبول روایتیں ہیں جن کی بابت امام ترمذی نے کہا ہے:حدیث غریب لا نعرفہ الا من ہذا لاوجہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی مقدمۂ شرح مشکوٰة میں لکھتے ہیں: وعلم مما ذکر ان الغرابة لاتنا فی الصحة ویجوز ان یکون الحدیث صحیحا غریبا بان یکون کل واحد من رجالہ ثقة انتہیٰ۔ یعنی راوی کا متفرد ہونا حدیث کی صحت کے منافی نہیں ہے۔ہو سکتا ہے کہ حدیث غریب ہو۔(یعنی اس کا کوئی راوی متفرد ہو)اور صحیح بھی ہو۔بایں طور کہ اس کا ہر راوی(متفرد اور غیر متفرد)ثقہ ہو۔ الغرض عیسیٰ کی توثیق ثابت ہو جانے کے بعد،تفرد کے باوجود حضرت جابر کی یہ روایت قابل قبول اور لائق احتجاج ہے۔ قولہ: یہی وجہ ہے(یعنی اس حدیث کا ضعیف و منکر ہونا)کہ حافظ ذہبی نے عیسیٰ کے تذکرہ میں اس کی اس اس روایت کو میزان الاعتدال میں نقل کیا ہے ان کی عادت ہے کہ وہ اس کتاب میں جس مجروح راوی کا ذکر کرتے ہیں،اگر اس کی روایات میں کوئی منکر