کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 123
دیکھئے!حافظ ابن صالح صاف صاف لکھ رہے ہیں کہ اگر راوی کے انفراد کی یہ صورت ہے کہ جس بات کے بیان کرنے میں وہ متفرد ہے۔یہ بات دوسرے احفظ و اضبط راوی کے بیان کے مخالف نہیں ہے بلکہ(انما ہو امر رواہ ہو ولم یروہ غیرہ)اس نے جوبات کہی ہے،دوسرے اس کے بیان سے ساکت ہیں۔تو اب اس راوی کو دیکھنا چاہئیے کہ حفظ و ضبط کے اعتبار سے کس پایہ کا ہے۔اگر ضبط و اتقان کے اعتبار سے یہ متفرد راوی قابل وثوق ہے تو اس کی روایت مقبول ہے اور یہ تفرد اس کے لئے کچھ مضرنہیں اور اگر اس کا حفظ و ضبط(پوری طرح)قابل وثوق نہیں ہے تو بے شک اس کی روایت صحیح نہیں کہی جائے گی،مگر پھر بھی یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ ضعیف ہی ہو۔اگرحفظ کے اعتبارسے بہت گرا ہوا راوی نہ ہو تو اس کی حدیث حسن ہو گی اور اگر اس کے خلاف ہو تو البتہ وہ روایت شاذو منکر کہی جائے گی۔ اس بیان کے لحاظ سے عیسیٰ کا یہ تفرد غیر مقبول نہیں کہا جا سکتا۔اس لئے کہ جو جرحیں اس پر کی گئی ہیں وہ سب غیر مقبول اور غیر ثابت ہیں اور ان کے مقابلے میں اس کی تعدیل و توثیق معتبر ہے۔لہٰذا حفظ و ضبط کے اعتبار سے اگر وہ بہت اعلیٰ درجہ پر نہ ہو،تو بہت گرا ہوا بھی نہیں ہے۔بنابریں اس کی یہ حدیث کم سے کم حسن کے درجہ میں ہو گی۔ضعیف یاشاذو منکر تو کسی حال میں بھی نہیں کہی جا سکتی۔حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: وزیادة روایہما ای الحسن والصحیح مقبولة مالم تقع منافیة لروایة من ہو اوثق لم یذکر تلک الزیادة لان الزیادة اما ان تکون لاتنا فی بینہما وبین روایة من لم یذکرہا فہذہ تقبل مطلقا لانہا فی حکم الحدیث المستقل الذی یتفرد بہ الثقة ولا یرویہ عن شیخہ غیرہ واما ان تکون منافیة بحیث