کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 122
'' بیان'' میں کوئی مخالفت او رمعارضہ نہیں ہے۔مثلاً قرآن حکیم نمازوں کی رکعات اور ان کی تعداد کے بیان سے ساکت ہے اور حدیثوں میں ان کا بیان ہے۔تو کیا کوئی عقل مند یہ کہہ سکتا ہی کہ یہ حدیثیں قرآن کے خلاف اور اس کی معارض ہیں؟ اب دوسری تنقیح کی رو سے یہ دیکھنا ہے کہ تفرد کی یہ صورت عند المحدثین مقبول ہے یا مردود؟تو اس کے جواب کے لئے ہم مقدمہ ابن صلاح کا ایک اقتباس آ پ کے سامنے پیش کرتے ہیں جس سے معلوم ہو جائے گا کہ ایسا تفرد مقبول ہے یا نہیں؟ وہ لکھتے ہیں: اذا ترد الراوی بشٔ نظر فیہ فان کان ا نفرد بہ مخالفا لما رواہ من ہو اولی منہ بالحفظ لذلک واضبط کان ماتفرد بہ شاذ امردودًا وان لم یکن فیہ مخالفة لما رواہ غیرہ وانما ہو المر رواہ ہو ولم یروہ غیرہ فینظر فی ہذا الراوی المنفرد فان کان عدلا حافظا موثوقا باتقانہ و ضبطہ قبل ما انفرد بہ ولم یقدح الانفراد فیہ کما سبق من الا مثلة وان لم یکن ممن یوثف بحفظہ واتقانہ لذلک الذی انفرد بہ کان انفرادہ خارمًا لہ مزحزحًا لہ من حیزا الصحیح ثم ہو بعد ذلک دائر بین مراتب متفاوتة بحسب الحال فان کان المنفرد بہ غیر بعید من درجة الحافظ الضابط لامقبول تفرد واستحسانا ذٰلک ولم ینحط الی قبیل الحدیث الضعیف وان کان بعیدا من ذلک رددنا ما انفرد بہ وکان من قبیل الشاذ المنکر انتہیٰ(النوع الثاث عشر)