کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 121
خاص وجہ عیسیٰ کے تفرد کو قرار دیا ہے۔چنانچہ لکھتے ہیں: '' بالخصوص جب کہ حضرت جابر سے اس بات کو نقل کرنے میں وہ متفرد ہے دوسرا کوئی اس کا موید و متابع موجود نہیں ہے،نہ کسی دوسرے صحابہ کی حدیث اس کی شاہد ہے ''۔(رکعات ص28) اصول حدیث سے ادنیٰ لگاؤ رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ راوی کے تفرد کی مختلف صورتیں ہیں اور رد و قبول کے اعتبار سے ان کے احکام بھی مختلف ہیں۔نہ ہر تفرد مقبول ہے اور نہ ہر تفرد مردود۔اس لئے اس موقع پر سب سے پہلے ان دو باتوں کی تنقیح ضروری ہے۔ ایک یہ کہ عیسیٰ کے تفرد کی صورت کیا ہے؟دوسری یہ کہ تفرد کی یہ صورت عند المحدثین مقبول ہے یا مردود؟ پہلی تنقیح کے جواب کے لئے ص 26 و ص27 کو پڑھئیے۔مولانا مئوی نے بڑی وضاحت سے یہ تسلیم کیا ہے کہ رمضان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز باجماعت کے راوی بہت سے صحابہ ہیں اور ان صحابہ سے اس بات کو نقل کرنے والے ان کے بہت سے شاگرد ہیں۔اتنی بات میں تو حضرت جابر اور ان کے شاگرد عیسیٰ کے بیان میں اور دوسرے صحابہ اور ان کے شاگردوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔اختلاف ہے تو صرف اس بات کا کہ حضرت جابر کے علاوہ دوسرے صحابہ اور ان کے شاگردوں نے ان رکعتوں کی تعداد نہیں بتائی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان راتوں میں پڑھی تھیں اور حضرت جابر اور ان کے شاگرد عیسیٰ کی روایت میں ان رکعتوں کی تعداد کا بھی بیان ہے۔ گویا عیسیٰ کے تفرد کی صورت یہ ہے کہ اس نے ایک ایسی بات بیان کی ہے جس کے بیان سے دوسرے راوی '' ساکت'' ہیں۔ظاہر ہے کہ '' سکوت'' اور