کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 12
شفاعت ہے۔تلویح میں ہے:۔
وترک السنة المؤکدة قریب من الحرام یتحق حرمان الشفاعة(تحفة الاخیار)
بحرالرائق میں ہے:۔
بمنزلة الواجب فی الاثم بالترک کما صرحوا بہ کثیرا
شرح منار میں علامہ زین نے لکھا ہے:۔
لا صح انہ یا ثم بترک المؤکدة لانھا فی حکم الواجب کذا فی الطحطاوی رکعات تراویح کے باب میں علماء حنفیہ نے صرف دو عددوں کا مسنون ہونا تسلیم کیا ہے۔کم از کم آٹھ اور زیادہ سے زیادہ بیس۔آٹھ رکعتوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فعلی سنت قرار دیتے ہیں اور بیس کو خلفاء راشدین اور صحابہ کرام کی۔بیس سے زیادہ رکعتوں کو نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مانتے ہیں اور نہ صحابہ و خلفاء راشدین کی،بلکہ بیس سے زائد رکعتوں کو تو نذاعی اور جماعت کے ساتھ پڑھنے کو مکروہ کہتے ہیں اور اس کے مکروہ ہونے میں تو کسی حنفی کا اختلاف ہی نہیں ہے۔لیکن بعض نے تو اس کو صاف صاف بدعت لکھا ہے۔آٹھ رکعات کے متعلق علماء حنفیہ کے اقوال آئندہ مباحث میں نقل کئے جائیں گے۔یہاں چونکہ نتقیحات مذکورہ بالا پر گفتگو ہے اس لئے وہی عبارتیں نقل کی جاتی ہیں جن کا تعلق بیس اور بیس سے زائد رکعات سے ہے۔
مولانا رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں:۔
بناء علیہ جو صحابہ اور تابعین اور مجتہدین علماء نے اعدادِ رکعات اختیار کئے ہیں سب امور مندوب ہیں،مگر علماء حنفیہ کے نزدیک جو عدد ان میں فعل یا قول رسول اللہ سے بجماعت ثابت ہوا ہے اس میں جماعت