کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 109
نہیں کرتا۔از بس ضروری ہو جاتا ہے کہ حضرت جابر کے راوی کا حال معلوم کیا جائے جو تنہا رکعات کا ذکر کرتا ہے۔(رکعات ص 27) ج:جی ہاں!خصوصًا ایسی حالت میں تو اس ضرورت کی شدت اور بڑھ جاتی ہے کہ حضرت جابر کے اس راوی نے رکعات کی جو تعداد بیان کی ہے وہ آپ کے اور آپ کے آباء و اجداد کے معمول کے خلاف ہے اور ایسی خلاف ہے کہ کھینچ تان کر بھی کہیں سے اس کو اپنے معمول کے مطابق بنانے کی گنجائش نہیں نکلتی۔اگر ایسا ہوتا تو البتہ آپ اس راوی کا حال معلوم کرنے کی ضرورت نہ سمجھتے۔جیسا کہ سننت لکم قیامہ۔والی روایت کی بابت آپ نے کیا ہے۔ قولہ:اس لئے میں حضرت جابر کے راوی عیسیٰ بن جاریہ کے متعلق رجال کی کتابوں سے ناقدین رجال کی تصریحات پیش کرتا ہوں۔(رکعات ص27) ج: ضرور پیش کیجئے،لیکن ساتھ ہی ان ناقدین رجال کے ناموں کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیجئے گا۔ا س لئے کہ ان میں وہ بھی ہیں جنہوں نے آ پ کے امام اعظم ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ پر بھی جرح کی ہے۔وہ بھی ہیں جنہوں نے بیس رکعات والی مرفوع روایت کے راوی ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان پر بھ ی بہت سخت جرحیں کی ہیں۔اگر یہ نام آپ کے ذہن میں محفوظ رہیں گے تو وقت ضرورت بہت کام دیں گے۔ نے کی ہے۔لہذااس کے حق میں جرحیں اسی وقت قبول ہوں گی جب وہ مفسر ہوں اور یہاں کوئی بھی مفسر نہیں۔اس لئے سب نا مقبول ہیں۔ رہی یہ بات کہ اس کا کیا ثبوت ہے کہ عیسیٰ کے جارحین میں اکثر