کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 104
ہے۔اسی لئے حافظ ابن حجر نے ان دونوں واقعوں کے ایک ہونے میں تردّد کا اظہار کیا ہے۔(ملخصاً ص25) ج: لیکن آپ کے علامہ عینی نے تو ان دونوں واقعوں کے ایک ہونے میں کسی تردد کا اظہار نہیں کیا ہے بلکہ صاف صاف ان دونوں واقعوں کو وہ ایک ہی سمجھ رہے ہیں۔چنانچہ لکھتے ہیں: فان قلت لم یبین فی الروایات المذکورة عدد الصلوٰة التی صلاہا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فی تلک اللیالی قلت روی ابن خزیمة وابن حبان من حدیث جابر رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ قال صلی بنا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فی رمضان ثمان رکعات ثم اوتر انتہیٰ۔(عمدة القاری ص597 ج2) یہ عبارت مع ترجمہ پہلے بھی گزر چکی ہے۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ علامہ عینی کے نزدیک یہ دونوں واقعے ایک ہی ہیں۔اسی لئے انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کو دوسری روایات کا مبیّن قرار دیا ہے۔ مولانا عبد الحٔ لکھنوی نے تو بصراحت ان دونوں واقعوں کو ایک ہی کہا ہے اور ایک جگہ نہیں بلکہ متعدد مقامات میں لکھا ہے۔چنانچہ لکھتے ہیں: '' آپ نے(یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے)تراویح دو طرح ادا کی ہے۔ایک بیس رکعات بے جماعت ....... لیکن اس روایت کی سند ضعیف ہے ............. دوسری آٹھ رکعتیں اور تین رکعتیں وتر باجماعت۔اور یہ طریقہ حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے تین راتوں کے علاوہ کسی رات میں منقول نہیں ہے ''۔(مجموعہ فتاویٰ جلد اوّل ص354)