کتاب: عمل صالح کی پہچان - صفحہ 45
کُتب ِ حدیث میں سے صحیحین، سُننِ اربعہ اور مؤطا امام مالک ؒ میں ارشاد ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے : ((اِنَّ اللّٰہَ یَنْہَاکُمْ أَنْ تَحْلِفُوْا بِآبَآئِکُمْ ، مَنْ کَانَ حَالِفاً فَلْیَحْلِفْ بِاللّٰہِ أَوْ لِیَصْمُتْ )) ’’بے شک اللہ تعالیٰ تمہیں آباء واجداد کی قسمیں کھانے سے منع فرماتا ہے ،اگر کسی نے قسم کھانا ہی ہے تو اُسے چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ کی قسم کھائے ،ورنہ خاموش رہے ۔‘‘[1] سنن ابن ماجہ میں ارشاد ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے : ((مَنْ حُلِفَ لَہٗ بِاللّٰہِ فَلْیَرْضَ وَمَنْ لَمْ یَرْضَ بِاللّٰہِ فَلَیْسَ مِنَ اللَّہِ )) [2] ’’ جس کے سامنے اللہ تعالیٰ کی قسم کھائی جائے ،اُسے راضی ہوجانا چاہیئے [اور یقین کرلینا چاہیئے ] اور جو شخص اللہ کی قسم پر راضی نہیں ہوتا، اللہ کے نزدیک اس کی کوئی حیثیّت نہیں ۔‘‘ سنن نسائی میں ایک حدیث ہے کہ ایک یہودی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ تم لوگ شرک کرتے ہو کیونکہ تم کہتے ہو : جو اللہ چاہے اور تم چاہو ،اور کعبہ کی قسم ۔تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اِذَا أَرَادُوْا أَنْ یَّحْلِفُوا أَنْ یَّقُوْلُوْا :وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ)) [3] ’’ جب بھی قسم کھائیں تو [کعبہ شریف کی قسم نہ کہیں بلکہ ] ربِّ کعبہ کی قسم کہیں ۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آباء و اجداد ،والدین یا اولاد تو درکنار خود کعبہ شریف کی قسم کھانا
[1] بخاری :۶۶۴۶ ، مسلم مع نووی : ۶؍۱۲ ؍۱۰۵۔۱۰۶ ، صحیح ابی داؤد :۲۷۸۵ ،صحیح ترمذی : ۱۲۴۱ ، صحیح نسائی:۳۵۲۵،الترغیب و الترھیب۵؍۲۰۸ حدیث : ۴۲۷۳۔ [2] سنن ابن ماجہ :۲۱۰۱، زوائد ابن ماجہ میں امام بوصیری نے اس کے راویوں کو ثقہ قرار دیا ہے۔ [3] صحیح نسائی :۳۵۳۳ ۔