کتاب: عمل صالح کی پہچان - صفحہ 107
تھے اور خلفاء راشدین ، عام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین ،تبع تابعین ،آئمہ دین رحمۃ اللہ علیہم او رعلماء امت آج تک خطباتِ جمعہ اور وعظ و تبلیغ کی مجلسوں میں اس خطبۂ مسنونہ کو دہراتے آرہے ہیں ۔ جبکہ سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنانے او ر بدعات سے بچنے کے بارے میں ابوداؤد و ترمذی، ابن ماجہ و مسند احمداور صحیح ابن حبان و سنن دارمی کے حوالے سے ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ذکر کیا جاچکا ہے اور وہ الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس وقت ارشاد فرمائے تھے جس کی منظر کشی کر تے ہوئے حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ((وَعَظَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مُوْعِظَۃً بَلِیْغَۃً وَجِلَتْ مِنْھَا الْقُلُوْبُ وَذَرَفَتْ مِنْـھَــا الْعُیُــوْنُ، فَقُـلْنَــا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! کَأَنَّھَا مَوْعِظَۃُ مُوَدِّعٍ فَأَوْصِنَا)) ’’ ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا بلیغ وعظ فرمایا جس سے ہمارے دل دہل گئے اور آنکھیں برس اٹھیں ۔ ہم نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) !یوں لگتا ہے جیسے یہ کسی الوداع کر نے والے کا وعظ ہو، آپ ہمیں وصیّت فرمائیں ۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أُوْصِیْکُمْ بِتَقْوَیٰ اللّٰہِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَإِنْ تُأُمِّرَ عَلَیْکُمْ عَبْدٌ)) ’’میں تمہیں تقویٰ اختیار کرنے اور امیر کی سمع و طاعت کی وصیّت کر تا ہوں ، چاہے تم پر کسی غلام کو ہی امیر کیوں نہ بنادیا جائے۔‘‘ اور آگے مذکورہ وصیّت فرمائی جس میں بدعات سے بچنے کا حکم فرمایاہے۔ ہم احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے سنتے بھی رہتے ہیں مگر معلوم نہیں کیا وجہ ہے؟ کہ ہمارے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگتی، اور نبوی پیمانوں کو چھوڑ کر اپنے ہی پیمانوں سے جسے چاہتے ہیں ،کارِثواب قرار دے کر اپنا لیتے ہیں ۔ اپنے دنیوی امور میں تو کوئی قدم اٹھانے سے پہلے ہم ہزار بار سوچتے ہیں ۔دس روپے کی کوئی