کتاب: عمل صالح کی پہچان - صفحہ 105
رہے اور پھر رحلت فرمائی۔ مذکورہ آیت کے ان الفاظ کا مفہوم بڑا واضح ہے کہ اُسی دن سے اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کو مکمل فرمادیا ہواہے۔ شریعتِ اسلامیہ کے احکام میں کسی قسم کی کوئی کمی یا خامی نہیں رہی۔ اس نے اس طرح اپنی رحمت کا اتمام کر دیا ہے اور امتِ محمدیہ عَلـٰی صَاحِبِہَا اَفْضَلُ الصَّلَٰٰواتِ وَاَتَمَّ التَّسْلِیْمَاتِ کے لیٔے دین اسلام کو پسند فرمایا ہے اور آج جس طرح دین اسلام کو ترک کرکے کسی دوسرے دین کو اختیار کر نا کفر و ارتداد ہے اسی طرح دین اسلام کی تعلیمات کو قولاً یا فعلاً ناقص و نامکمل کہنا بھی قرآنِ کریم کی اس آیت کی صریح خلاف ورزی ونافرمانی ہے۔ تکمیلِ دین اور اتمامِ نعمت کا اعلانِ الٰہی ہوچکنے کے بعد اب اگر کوئی شخص کسی ایسے کام کو اپناتا ہے اور دوسروں کو بھی اس کے اپنانے کی ترغیب دیتا ہے جو قرآن و سنت سے ثابت نہ ہو تو ایسا شخص ظاہر ہے کہ ’’شریعت ساز‘‘ کہلا ئے گا ۔ اور ایسا کام ’’ایجادِ بندہ‘‘ شمار ہوگا کیونکہ جب اللہ تعالیٰ دین اسلام کی تکمیل فرماچکا ہے تو آج کوئی نئی چیز دین میں داخل کر نا نہ صرف دخل درمعقولات بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر اس بدظنی کے اظہار کے مترادف ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دین ابھی مکمل نہیں ہوا بلکہ اس میں تو ابھی بھی فلاں فلاں امور یاا عمال کے اندراج کی کمی باقی ہے یا پھر یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نعوذُبِاللہ ہمیں پورا دین نہیں پہنچایا اورتبلیغِ رسالت میں نعوذُ بِاللہ کو تاہی برتی ہے۔ امام شاطبی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’کتاب الاعتصام‘‘ میں ا مام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا قول یوں نقل کیا ہے: ( مَنْ أَحْدَثَ فِیْ ھَذِہٖ الْأُمَّۃِ شَیْئاً لَمْ یَکُنْ عَلَیْہِ سَلَفُھَا فَقَدْ زَعِمَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم خَانَ الدِّیْنَ لِأَنَّ اللّٰہَ یَقُوْلُ: {اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ} فَمَا لَمْ یَکُنْ یَوْمَئِذٍ دِیْناً لَا یَکُوْنُ الْیَوْمَ دِیْناً) [1] ’’جس شخص نے اس امت میں کوئی (ایسی) چیز ایجاد کی جس پر اس(امت) کے سلف نہیں تھے، اُس نے یہ گمان کیا کہ (نعوذُ بِاللہ)رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
[1] الاعتصام :۱؍۴۹،تحقیق البدع و النہی عنہا وضّاح القرطبی ،ص :۴۰ ۔