کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 99
ہستی تھے اور میں ان کا ایک کمترین شاگرد، بڑے بڑے شاہ اور حکمران ان کا ہاتھ تھام کر چلنے میں فخر محسوس کر تے تھے اور ان کی بند آنکھوں میں جھانک کر اپنی عاقبت روشن کرلیتے تھے اور سفر حیات کو ان کے مشوروں کی روشنی میں ٹھوکروں سے بچا کر طے کر لیتے تھے، ایسے بڑوں کے درمیان سر بلند رہنے والی شخصیت کو مجھ جیسے بے نام و نشان نے جب بھی کوئی خط لکھا جواب سے سرفراز کر دیا، فراغت کے بعد خیریت سے گھر پہنچنے کا خط لکھا جو ہر گز جواب طلب نہیں تھا، اس کا بھی جواب تحریر فرمایا، شادی کی اطلاع دی، ڈھیر ساری دعاؤں کی سوغات بھیجی، کسی طالب علم کے لیے داخلہ کی سفارش لکھی تو جواب میں فرمایا، آپ جسے بھیجیں گے ہم اس پر خصوصی توجہ دیں گے، سفر نائیجریا کے موقع پر دفتری کا رروائی میں تاخیر ہو گئی، جس سے میرا کچھ نقصان ہوا، اس کی شکایت لکھی تو معذرت کے ساتھ نقصان کی تلافی کے لیے ایک ہزار ریال کا چیک روانہ فرمایا، ایسی بے حد وحساب یادیں اور باتیں ہیں اور ان میں کوئی بھی آسانی سے بھلائی جانے والی بات نہیں۔اخیر میں رندھی ہوئی آواز میں اتنا ہی کہہ سکوں گا ؎
تمام عمر پڑھوں اور کبھی بھی ختم نہ ہو
وہ اپنی یادوں کی ایسی کتاب دے کے گئے[1]
٭٭٭
[1] ماہنامہ صراط مستقیم کے ایڈیشن اگست وستمبر 1999ء میں استاذ محترم نے یہ مضمون قلم برداشتہ لکھا تھا۔ البتہ انھوں نے اسی میگزین میں اکتوبر ونومبر 2008ء میں دو قسطوں میں علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے بارے میں ایک مفصل مضمون لکھا تھا۔ وہ مضمون بھی میں نے اپنی اس کتاب میں شامل کر دیا ہے۔ چونکہ استاذ محترم کے الگ الگ وقت میں لکھے گئے یہ دونوں مضمون اپنے اندر انوکھی معلومات رکھتے ہیں اور دونوں کے مطالعے میں الگ الگ لذت بھی ہے....( ریاضی)