کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 98
جاتا اس کی میزبانی شاندار طریقے پر کرتے، سابق معتمد جامعہ کا کا محمد عمر اور موجودہ معتمد مولانا کاکا سعید احمد صاحب عمری کے ساتھ تو آپ کے تعلقات گھر یلو جیسے ہو گئے تھے، ہر ملاقات پر جامعہ کے حالات کے ساتھ گھر کے افراد کے بھی احوال و کوائف دریافت کرتے، دونوں بھائیوں کے دوش بدوش آپ نے جامعہ کی ترقی شہرت اور نیک نامی کے لیے ایک ناقابل فراموش کردار انجام دیا، اس لیے آپ کی وفات کی خبر نے جامعہ دارالسلام اور اس کے ذمہ داروں کو بہت زیادہ متاثر کیا۔ ہمارے ایک ساتھی محمد یونس ندوی (لکھنؤ یونیورسٹی کے پروفیسر اور صدر شعبہ عربی) مدینہ میں بیمار ہوئے، مرض تشویش ناک تھا، ڈاکٹروں کی سمجھ سے بالاتر، شیخ نے ہاسٹل سے باہر شہر کے ایک تیسر ہوٹل میں جامعہ کے خرچ پر بھجوادیا، روزانہ عصر کے بعد عیادت کے لیے تشریف لاتے، دعائیں پڑھ کر پھونک مارتے، یونس صاحب جو کسی سے کم ہی متاثر ہوتے تھے، کہتے ہیں کہ شیخ یقینا اللہ والے بزرگ ہیں جب تک میرے قریب رہتے ہیں، میری وحشت دور ہوجاتی ہے۔ دعوت وتبلیغ: اشاعت اسلام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میدان میں دعوت وتبلیغ سے زیادہ داعی کے اوصاف واخلاق کا کردار زیادہ مؤثر ہوتا ہے، اس دعویٰ کی صداقت بھی آپ کو شیخ کی زندگی میں بدرجہ ٔاتم ملے گی، ’’ المجتمع‘‘ کویت لکھتا ہے کہ شیخ کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی توفیق دی ان کی اوسط روزانہ پانچ کے حساب سے ہے، وفات سے صرف دو گھنٹہ قبل جان کنی کے عالم میں بھی اپنے نصرانی طبیب کو اسلام کی حقانیت سمجھا نے میں مصروف ہیں، شاید اسی منظر سے محوحیرت ہو کر ملک الموت نے آپ کی حیات مستعار کے دو گھنٹے بڑھا دیے ہوں تو کیا عجب ہے۔ حاصل کلام: شیخ ابن باز کے کریمانہ اخلاق حکیمانہ اسلوب، مشفقانہ سلوک کے بارے میں جس قدر بھی لکھا جائے وہ آپ کے کا نارموں اور واقفیت سے کم اور بہت کم ہے، وہ ایک عظیم ترین