کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 97
ہوا بلکہ سعودیہ ہی سے ان کو ملک بدر کر دیا گیا، ان کی خاطر شیخ نے اردن، عراق اور کویت کے حکمرانوں کے نام قاصد کے ذریعہ (شیخ عبدالوہاب البناء) خطوط بھیجے، اردن اور عراق میں ناکامی ہوئی، کویت نے قبول کیا اور اب وہ کویت کی احیاء التراث الاسلامی کے اہم ذمہ دار ہیں، بڑی تحقیقی اور علمی کتابوں کے مصنف ہیں، بڑی عزت کی نظروں سے دیکھے جاتے ہیں۔ عالم کسی بھی مسلک یا مکتبہ فکر کا ہوتا اس کے احترام اور خاطر داری میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے، قاری محمد طیب صاحب تشریف لائے تو جامعہ کے ہال میں ان سے تقریر کرائی، ڈاکٹر حمید اللہ (پیرس) ہفتہ عشرہ تک جامعہ میں عشاء کے بعد روزانہ لیکچر دیتے رہے، مولانا داؤد غزنوی مولانا مودودی اور مولانا سید ابوالحسن علی ندوی تو جامعہ کے اراکین ہی تھے مولانا شاہ بدیع الدین عرف جھنڈا پیر کے علم اور بیباکی کے بڑے معترف تھے، جامعہ میں بھی ان سے تقریریں کرائیں اور حرمین میں باقاعدہ ان کے مواعظ کا انتظام کرادیا، مولانا عبداللطیف نعمانی (میرے چچا زاد بہنوئی) حج پر آئے، مسند حمیدی کی پہلی جلد (تحقیق مولانا حبیب الرحمن اعظمی) شیخ کی خدمت میں ہدیہ کرنا چاہتے تھے، لے گیا تو کھڑے ہو کر تپاک سے ملے اور گھر پر کھانے کے لیے لے گئے، حاتم دوراں حاجی حمید اللہ صاحب کے فرزند حافظ محمد یحییٰ 1965ء میں خاندان کے کثیر افراد کے ساتھ حج پر آئے تھے، شیخ کے پاس لے گیا اور تعارف میں عرض کیا کہ مدینہ کا دارالحدیث بنا نے میں جس شخصیت نے سب سے بڑا کارنامہ انجام دیا تھا، یہ ان کے فرزند ہیں،فرط مسرت میں بڑی دیر تک شیخ نے حافظ یحییٰ کو سینے سے چمٹائے رکھا، ان کے والد کے کارنامے کو سراہتے رہے، دعائیں دیتے رہے، میں نے جب یہ کہا کہ حاجی حمید اللہ صاحب نے دارالحدیث کے قیام کے لیے اس وقت تقریباً ایک لاکھ کی رقم دی تھی جو آج کے حساب سے کئی لاکھ ہو جائے گی تو شیخ نے فرمایا: اکثر بکثیر، یعنی اس سے بھی بہت بہت زیادہ۔ موسس جامعہ دارالسلام کے افراد خاندان سے آپ اس قدر مانوس اور قریب ہو چکے تھے کہ کسی بھی ’’کا کا‘‘ سے اجنبیت محسوس نہیں کی، اس خاندان کا کوئی بھی شخص حج یا عمرے پر