کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 96
دوسرے دن پاکستانی طلبہ نے شیخ سے کہہ دیا کہ ترجمہ صحیح نہیں ہوا، شیخ حیران ہوئے، تقریر کی کیسٹ منگوائی اور شہر سے ایک غیر جانبدار اردو دان کو ترجمے کی زحمت دی گئی، صحیح ترجمہ سن کر شیخ کو دکھ ہوا، اور فوراً ذاکر صاحب کی خدمت میں جو اس وقت تک ہندوستان پہنچ چکے تھے، شکایت کا ایک طویل خط روانہ کیا، جواب کیا آیا، یا آیا بھی کہ نہیں، اس کا ہمیں علم نہیں۔ علم دوستی اور احترام علماء: طالبان علم سے تو آپ والدین جیسا مشفقانہ رویہ رکھتے تھے، ان کی ہر تکلیف دور کرنے میں پوری پوری سعی فرماتے تھے، 1965ء رمضان کے آخری دن تھے، مدینے کے بازار میں کچھ دکانوں میں عید کے موقع پر فروخت کرنے کے لیے نیم برہنہ گڑیاں سجا کے رکھی ہوئی تھیں، جامعہ اسلامیہ کے طلبہ نے اسے ناپسند کیا، د کانداروں کو سمجھانے کی کوشش کی، بات بڑھ گئی، ہاتھا پائی کی نوبت آگئی، پولیس حرکت میں آگئی اور دھڑا دھڑ بیس سے زائد طلباء کو گرفتار کر کے جیل میں بند کرادیا، یہ سب اتنی عجلت سے اس لیے ہوا کہ مدینہ کے عام باشندے جو اکثر باہر سے آکر آباد ہوئے تھے وہ اس وقت جامعہ اسلامیہ کے خلاف تھے، مزید یہ کہ مولانا حسین احمد مدنی کے بھتیجے سید حبیب امیر مدینہ کے وکیل تھے، انہی کے حکم سے یہ گرفتاریاں عمل میں آئیں، اور اخباروں نے سرخیاں جمائیں کہ جامعہ اسلامیہ کے طلبہ نے مدینہ کے د کانداروں پر مسلح حملہ کر دیا۔ غرض شیخ ابن باز کو گرفتاری کی اطلاع جیسے ہی ملی تڑپ اٹھے، افطار کا وقت تھا، سید حبیب صاحب سے بات کی تو جواب دیا کہ صورت حال کی اطلاع وزیر داخلہ کو بھیج دی گئی، اب وہیں سے کچھ ہوسکتا ہے، وہ کچھ بھی نہیں کرسکتے، شیخ رات کے ایک ڈیڑھ بجے تک بہت مصروف رہے، کئی وزراء کو فون کر کے سفارشیں کیں، چونکہ معاملہ کو بہت مبالغے کے ساتھ پیش کیا گیا تھا، اس لیے سب نے تحقیق تک رہائی کو ملتوی کر دیا، شیخ نے اپنے طور پر ڈھیر سارے پھل خریدے، جاڑے کا موسم تھا، کمبل جمع کیے اور سحری کا کھانا وغیرہ پہنچا کر گھر واپس ہوئے، ان طلبہ میں ہمارے ساتھی شیخ عبدالرحمن عبدالخالق بھی تھے، جن کا نہ صرف جامعہ سے اخراج