کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 94
آور، نامور اور شہرت یافتہ شخصیتیں اس میں تھیں مگر شیخ نے کسی کے قد کی پروا نہیں کی، آپ صرف اسلام کا بول بالا کرنا چاہتے تھے، کانفرنس کے اختتام پر مجلس نے تشکر وامتنان کی سوغات پیش کرتے ہوئے کھلے دل سے اور واضح الفاظ میں اعتراف کیا کہ شیخ ابن باز کی موجودگی نے ہی اس کا نفرنس کو اسلامی حدود کے دائرے سے خارج ہونے سے باز رکھا۔ 1392ھ مدینہ منورہ میں ’’ ندوۃ الشباب العالمی‘‘ کا تاسیسی اجلاس تھا، مصر کے متبحراور داندور عالم محمد متولی الشعراوی (ابھی چند ماہ قبل آپ کا انتقال ہو گیا) نے اس موقع پر ’’مکانۃ المراۃ فی الاسلام‘‘ کے موضوع پر ڈیرھ گھنٹے کی تقریر فرمائی، تقریر ختم ہوئی تو شیخ ابن باز نے گیارہ تعلیقات چڑھا ئیں، شعراوی سنتے رہ گئے، اور حاضرین انگشت بدنداں رہ گئے۔ طالب علمی کے دور میں شیخ نائب الرئیس کی حیثیت سے درس وتدریس کا جائزہ لینے درسگاہوں میں تشریف لاتے، درس بھی سنتے، جامع الترمذی ہم لوگ شیخ الحدیث حافظ محمد گوندلویؒ سے پڑھ رہے تھے، اسانید کا سبق تھا، رجال الحدیث کے احوال ومراتب اور ان کے طبقات کا تذکرہ ہو رہا تھا، حافظ صاحب نے ایک راوی کے بارے میں فرمایا ’’ہو من الطبقۃ الثانیۃ‘‘ شیخ ابن باز نے تصحیح فرمائی کہ ’’لا، ہو من الطبقۃ الثامنۃ‘‘ حافظ صاحب نے کتاب کو آنکھوں کے قریب لے جا کر بتا یا ’’ طبقۃ ثانیہ‘‘ہی لکھا ہے، اب حیران ہونے کی باری ہماری تھی کہ شیخ نے فرمایا طباعت کی غلطی ہو گی، دوسرا ایڈیشن منگوا کر دیکھا جائے، دوسرے ایڈیشن میں دیکھا گیا تو شیخ کی بات صد فیصد صحیح تھی، اس کا مطلب یہ کہ لائق استاذ غلط ہو سکتا ہے، کتاب غلط ہو سکتی ہے، لیکن شیخ کی یاداشت غلط نہیں ہو سکتی، یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ حافظ محمد صاحب گوندلوی رحمہ اللہ بڑے پائے کے شیخ الحدیث تھے، تقسیم سے پہلے جامعہ دارالسلام عمر آباد میں بھی استاذ تھے، علوم حدیث میں آپ کے تبحرکا چرچہ اور غلغلہ عرب وعجم میں تھا، مسجد نبوی میں بعد نماز مغرب آپ کا درس بخاری ہوتا تھا، تو مدینہ منورہ کے ساٹھ سے زائد اساتذہ اس میں بڑی عقیدت اور ادب کے ساتھ التزام