کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 92
بند کردئیے گئے، اور کچھ ہی دیر بعد کیپٹن شیخ کا ہاتھ تھامے باہر آیا، اور شیخ کے ساتھ کار میں سوار ہو کر ہوائی اڈے کی طرف نکل گیا، چار دن شیخ جامعہ اسلامیہ سے غائب رہے اور پانچویں دن مملکت کے اخباروں کے پہلے صفحہ پر شاہ سرخی تھی:
(( أصدر علماء الائمۃ فتوی شرعیۃ بخلع الملک سعود بمبایعہ الا میر فیصل ملکا علی المملکۃ السعودیہ۔))
یعنی....’’علمائے امت نے یہ شرعی فتویٰ صادر کر دیا کہ ملک سعودکی جگہ شہزادہ فیصل سعودی عرب کے بادشاہ ہوں گے، تو شیخ کے ریاض کی طرف ہنگامی سفر کا یہی راز تھا۔‘‘
ملک فیصل بادشاہ بننے کے بعد جامعہ اسلامیہ تشریف لائے، اداروں کا معائنہ فرمایا، درسگاہوں کی زیارت کی اور ہماری ہی کلاس میں شیخ محمد امین شنقیطی کے درس تفسیر میں کوئی دس منٹ تک ایک سادہ کرسی پر بیٹھ کر بڑی توجہ اور اشتیاق سے درس کو سنا، پھر لیکچر ہال کی طرف روانہ ہوئے، اس پوری دوڑ دھوپ میں شیخ ابن باز کا رفیق کہیں پیچھے ہوگیا اور ملک فیصل ہی شیخ کا ہاتھ پکڑے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔
لیکچر ہال طلبہ اور مہمانوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، ملک کے بیٹھنے کے بعد شیخ استقبالیہ کلمات کہنے کے لیے اسٹیج پر کھڑے ہوئے اور چند لمحے خاموش گزار دئیے، جیسے خطاب کے لیے مناسب اور موزوں الفاظ کی تلاش ہو، ہم سب ساتھی انتظار میں تھے کہ شیخ کن القاب وخطابات سے ملک کو خطاب فرمائیں گے، کیونکہ کچھ مدت پہلے جلالۃ الملک کے لفظ پر اعتراض ہوا تھا کہ لفظ جلالۃ اللہ جل جلالہ کے ساتھ ہی صحیح ہے اور شیخ بھی اس موقف کی تائید میں تھے، شیخ نے توقف کے بعد استقبالیہ شروع کیا تو فرمایا:
((ایہاالملک العزیز امیر المؤمنین فیصل بن عبدالعزیز۔))
جوابی تقریر میں ملک نے فرمایا، شیخ بن باز صرف عمر میں مجھ سے چھوٹے ہیں مگر میں انہیں بڑے بھائی اور باپ کا مرتبہ دیتا ہوں، انہوں نے مجھے امیر المومنین کہا تو میں شرم سے