کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 91
کی جاتی ہے تو لوگ اپنی برتری کا حوالہ دے کر دوسرے کی کمتری کی طرف اشارہ کرتے ہیں جب کہ یہ گناہ کا ارتکاب ہے، اپنے خطاب میں کسی کا نام نہیں لیا مگر اس آیت کے انتخاب نے سامعین کو پانی پانی کر دیا، آیات واحادیث کا عجیب وغریب استحضار تھا، بروقت اور مناسب حال ایسی آیت اور حدیث پیش فرماتے کہ گھنٹوں کی وعظ ونصیحت پر بھاری پڑجاتی۔ حکمرانوں کے درمیان: شاہی خاندان کی آنکھوں کے نور تھے، ان کے دلوں کی دھڑکن تھے، دینی اور مذہبی امور میں ان کے راہنما تھے، حق گوئی اور بیباکی میں اپنی مثال آپ تھے، سعودی حکمران کیا بادشاہ کیا، شہزادے سبھی آپ کے قدردان اور مرتبہ شناس تھے، وفات کی روح فرساخبر سن کہ غیر ملکی دوروں پر گئے ہوئے شاہی خاندان کے وزرائے مملکت نماز جنازہ میں شرکت کرنے دور دراز ملکوں سے واپس ہوگئے، خود شاہ فہد جو علیل تھے، اڑکر حرم مکی پہنچے، کلیجہ تھام کر نماز جنازہ ادا کی اور آپ کے اہل خانہ سے اشکبار آنکھوں اور گلوگیر آواز میں دل کی گہرائیوں سے نکلے ہوئے تعزیت کے یہ کلمات ادا کیے، آپ کے والد (اللہ کی رحمت ہو ان پر) صرف آپ ہی کے نہیں وہ ہمارے بھی والد تھے، اور ذاتی طور پر وہ میرے لیے اس سے بھی بڑی حیثیت رکھتے تھے، ان کی وفات، آپ کے خاندان کا ہی نقصان ہے اور ساری دنیا کے مسلمانوں کا نقصان ہے، ان کی وفات سے ہم ایک ایسے انسان کی سرپرستی سے محروم ہوگئے جو ہمارے لیے سب سے محترم اور معتبر تھی، صدق واخلاق، صفا اور وفا کے اعتبار سے وہ ہمارا قیمتی سرمایہ تھے، ہماری خیر خواہی اور راہنمائی کی انہیں سب سے زیادہ فکر تھی۔ (روزنامہ عکاظ 15 مئی 1999ء) مجھے اچھی طرح یاد ہے جیسے کل ہی کی بات ہو1964 میں شاہ سعود حکمران تھے، ان کے نائب تھے شاہ سعود علیل رہتے تھے اورفیصل بہت ہی چاق وچوبند اور ملک وملت کا بڑا درد رکھتے تھے، اس سن کا غالاً اکتوبر کا مہینہ تھا، سعودی طیارے کا کیپٹن اپنی مکمل وردی میں بجلی کی طرح دندنا تا ہوا جامعہ اسلامیہ آیا، شیخ ابن باز کے دفتر میں داخل ہوا، تخلیہ کرا کے دروازے