کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 90
شیخ نمونہ سلف تھے:
سلف صالح کے تقویٰ وطہارت، وامانت اور انابت الی اللہ پر جو واقعات ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں، شیخ ابن باز ان کا جیتا جاگتا نمونہ تھے، دفتر سب سے پہلے تشریف لاتے اور سب سے اخیر میں واپس آتے، دفتری امور انجام دینے کے درمیان پانچ منٹ کی فرصت بھی مل جاتی تو اپنے سیکرٹری سے یا کسی استاذ سے فرمائش کر کے قرآن پاک کی تلاوت کراتے اور سر جھکا کر ایسے انہماک واستغراق سے سماعت فرماتے جیسے پہلی بار سن رہے ہوں، کبھی ایسے مواقع پر ادھر سے ہمارا گزر ہوتا اور نظر پڑتی تو کئی بار ہم نے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں سے آنسورواں ہیں۔
شیخ کا نام نامی خلیفہ راشد عمر بن عبدالعزیز کی یاد تازہ ہو جاتی تھی، حکومت کی طرف سے آپ کو بڑی قیمتی شاندار موٹر کار ملی ہوئی تھی جس کے نمبر پلیٹ پر نمبر کی جگہ الخاصۃ الملکیۃ تحریر ہوتا تھا، صرف جامعہ کے فرائض انجام دیتے وقت آپ اسے استعمال فرماتے، بقیہ کام کے لیے معمولی اور عام ٹیکسی سے آمدورفت رہتی، جامعہ کا ایک ملازم بیت الخلاء کی صفائی پر متعین تھا، سویرے آتا، عجلت کے ساتھ صفائی سے فارغ ہونے کے بعد شیخ کے دفتر میں ظہر تک بیٹھا وہاں کی علمی مجلس سے مستفید ہوتا رہتا، شیخ کو دوسرے اداروں کا دورہ کرنا پڑتا تو عموماً یہی شخص شیخ کا ہاتھ تھامے راہنمائی کے فرائض انجام دیتا، اکثر طلبہ کو یہ راہ ورسم کچھ عجیب سی لگتی، کیونکہ وہ اسے منہ لگانا بھی پسند نہیں کرتے تھے، ایک دن کا واقعہ ہے کہ یہی شخص جس کانام موسی ہے ظہر کے لیے جارہا تھا، جماعت کھڑی ہو چکی تھی، اس نے دیکھا کہ کچھ طلباء کمرے میں بیٹھے بات چیت میں مصروف ہیں، کہا کہ تکبیر ہو چکی ہے، طلبہ کو اس کی مداخلت بری لگی، کہنے لگے تم نماز کو ہمیں بلانے کے بجائے اپنا پیشہ ہی انجام دیتے رہو تو بہتر ہے، کیونکہ ہم اپنا کام جانتے ہیں، اس جواب سے موسی بہت رنجیدہ ہوا اور شیخ سے شکایت کردی، شیخ نے دوسرے دن ظہر کے بعد ایک مختصر تقریر فرمائی جو اس آیت سے شروع ہوئی، ﴿وَاِذَا قِیْلَ لَہُ اتَّقِ اللّٰہِ، اَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِالْاِثْم﴾ آیت کا مفہوم ہے کہ اللہ سے ڈرنے کی بات