کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 89
حسن وجمال کے شاہکار فضا کو معطر کر نے والے پھولوں اور کلیوں کے درمیان رہنے بسنے کے باعث کیا مجھے فخر وانبساط کا حق نہیں پہنچتا؟ حقیقت یہ ہے کہ میں ہم نشین کے حسن وجمال سے سر شار ہوں ورنہ میں وہی گھاس ہوں جو گائے بکری کا چارہ بنتی ہے، مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں شیخ ابن باز کی سر پرستی میں حصول علم اور استفادہ برکات کے لیے چار سال میسر آئے تو کیا میرے لیے یہ سرمایہ افتخار نہ ہوگا: یہ بندہ کمینہ، ہمسایہ خداتھا 1962ء جنوری کا مہینہ تھا جب میں نے طالب علم کی حیثیت سے مدینۃ الرسول، مہبط الوحی میں قدم رکھا،کہنا بے ادبی ہوتی، اس لیے سر کے بل پہنچا، جامعہ نیا تھا، افتتاح کا پہلا ہی سال تھا، طلبہ کی تعداد مختصر تھی، شیح ابن باز بھی مدینہ منورہ میں نئے تھے، مصروفیات بھی محدود تھیں، طلبہ کا تعلق ادارے کے سر براہ سے بڑا گہرا ہوتا ہے اور بار بار ملنے ملانے کے مواقع فراہم ہوتے رہتے ہیں اور شیخ کا دفتر صلائے عام تھا، طلبائے ہیچ مداں کے لیے نہ کوئی حاجب اور نہ حجاب، نہ کوئی تکلف اور نہ کوئی ممانعت! ہر کوئی منہ اٹھائے چلا آتا ہے، شکایتوں اور درخواستوں کے طومار کھولے چلا جاتا ہے، شیخ انتہائی صبر وسکون سے سماعت فرماتے ہیں، نورانی چہرے پر ابدی مسکراہٹ سایہ فگن رہتی ہے۔ بڑی دانشمندی اور دور اندیشی سے مسائل سلجھاتے ہیں اور سائل کو مطمئن کر کے رخصت کرتے ہیں،آپ کی اس حسن تدبیر کے چر چے ایک کان سے دوکان ہوتے ہوئے سمندر وں کو پھلانگ کر لندن تک جاپہنچتے ہیں، اور وہاں ایک ادارے کا سر براہ انگریز آپ کی خدمت میں اس مضمون کا خط لکھ کر تعاون کی درخواست کرتا ہے، آداب و القاب کے بعد لکھتا ہے، میں ایک نابینا ہوں اور چھوٹے سے ادارے کا نگراں ہوں، لیکن بصارت سے محروم ہونے کی وجہ قدم قدم پر انتظام میں مشکلات کھڑی ہو جاتی ہیں، مجھے معلوم ہوا، آپ نابینا ہونے کے باوجود ایک بہت ہی نامور یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں اور بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ نظم ونسق چلانے میں کامیاب ہیں، کیا ہی اچھا ہوگا مجھے اپنی راہنمائی میں لے کر مفید مشوروں سے نوازتے رہیں۔انگریزی زبان کا یہ خط میں نے اور میرے ساتھیوں نے بچشم خود دیکھا جو شیخ سعدالدین ملیباری کی میز پر عربی میں ترجمہ کرنے کے لیے رکھا ہوا تھا۔